Tuesday, 31 December 2013

Daar Kay Agaye Jeet Hai

Saudi Arabia: Saudi prince to be executed

Mera Leader Zindabad By Talat Hussain

Secret Qadiani Religion Preaching Movement in Pakistan

Secret Qadiani Religion Preaching Movement in Pakistan

Pakistani government should take notice of the preaching movement of the religious sect of Qadiani. The religious group by provision of food items to the deprived and ill-religious people is brain washing their minds and directing them to adopt their religion.
They are active in their religion preaching across the country including Karachi and Tharparkar. The government taking notice of the issue should take stern action against such activities in accordance with the constitutional laws or the religious parties would take implementing steps’.
The Englishmen have left the sub-continent but strengthened their imprints in our society. Our government should take serious notice of the issue who are using Islam as tool for the spread of their religion. ‘Qadianis’ have formed separate state in Rabwah where they are highly engaged in their mission and the area remains uninterrupted due to negligence of the government.
Ahmadis (Qadianis) according to the constitutional law are non-Muslims whether in majority or minority. They do not believe in the Finality of Prophethood and hence they are not called Muslims.
Often in Pakistan, they are targeted for their wrong religious beliefs but still they continue to preach their religion in small sects due to negligence of the government.
Economically weak, unaware people are preached of their religion who being uneducated believe it to be true.

غداری کیس : مشرف کی جانب سے فوج کی مکمل حمایت کا دعویٰ....فوج اپنی غیرجانبداری کی وضاحت سے گریز نہ کرے

غداری کیس : مشرف کی جانب سے فوج کی مکمل حمایت کا دعویٰ....فوج اپنی غیرجانبداری کی وضاحت سے گریز نہ کرے
ایڈیٹر | اداریہ

سابق صدر پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ غداری کیس کیخلاف پوری پاک فوج انکے ساتھ ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھ پر لگائے گئے غداری کے الزامات انتقامی کارروائی ہے۔ اسکے خلاف مجھے طاقتور پاک فوج کی پشت پناہی حاصل ہے۔ میرے خلاف غداری کے الزامات پر پوری فوج پریشان ہے۔مجھے جو فیڈ بیک موصول ہوا ہے اسکی بنیاد پر مجھے کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملہ پر پوری فوج مکمل طور پر میرے ساتھ ہے۔نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں پرویز مشرف نے کہا کہ 12 اکتوبر کو جو کچھ بھی ہوا اس وقت پاکستان کی صورتحال بدترین تھی۔ وزیراعظم شوکت عزیز نے شکایت کی تھی کہ عدالت نجکاری میں بھی مداخلت کر رہی ہے، عدالتوں سے دہشت گردوں کو چھوڑا جا رہا ہے، دہشت گردی کا بڑھنا اور معیشت کا نقصان ایمرجنسی کی بڑی وجہ تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے مجھ سے اپنی دشمنی ظاہر کی، میرے کیس میں بنچ افتخار محمد چودھری کا بنایا ہوا ہے تاہم اب سپریم کورٹ کا ماحول تبدیل ہے اور امید ہے ہماری سنی جائیگی۔

سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں فل کورٹ نے 31 جولائی 2009ءکو سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ءکے ایمرجنسی پلس کے نفاذ کو غیرآئینی قرار دیا تھا۔ اس آرڈر میں ٹکہ اقبال کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا جس میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں مشرف کے ایمرجنسی کے اقدام کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ 31 جولائی کے اسی فیصلے کے تحت پی سی او ججز فارغ کر دیئے گئے تھے۔ یہ غیرآئینی اقدام غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کیس میں عدلیہ سوموٹو لے سکتی ہے‘ نہ حکومت کے سوا کوئی یہ معاملہ عدالت میں لے جا سکتا ہے۔ 2009ءمیں پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی‘ اس نے مشرف کو ملک میں لانے کی کوشش کی‘ نہ آرٹیکل 6 کے تحت ان کیخلاف کیس فائل کیا گیا۔ ایک موقع پر سابق آمر نے پاکستان آنے کا اعلان کیا تو پیپلزپارٹی کی صفوں میں اودھم مچ گیا۔ ہر تیسرا رہنماءمشرف کو دھمکا رہا تھا کہ ان کو ملک پہنچتے ہی گرفتار کرلیا جائیگا۔ اس پر مشرف نے وطن واپسی کا پروگرام منسوخ کر دیا۔ مشرف دیارغیر میں بیٹھ کر لیکچرز دیتے یا کمپیوٹر سے کھیلتے تھے‘ فیس بک پر انکے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گئی جسے سابق آمر نے اپنی مقبولیت کی معراج گردانا اور ایک سیاسی پارٹی بنا کر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور اسی مقبولیت کے زعم میں 2013ءکے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی پاکستان چلے آئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ آج کی اعلیٰ عدلیہ ایمرجنسی پلس میں فارغ کئے گئے ججوں یا جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک میں حصہ لینے والے ان وکلاءپر مشتمل ہے جو بعد میں جج بنے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جج مشرف سے تعصب رکھتا ہے۔ مشرف کیخلاف ججز نظر بندی‘ بینظیر‘ اکبر بگٹی قتل اور لال مسجد اپریشن کے مقدمات کھلے۔ ان تمام میں مشرف کی ضمانت انہی ججوں نے لی جن پر تعصب کا الزام لگایا جاتا رہا۔ بہرحال اب مشرف نے خصوصی عدالت کے قیام کو اپنے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں تاہم سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے۔

مشرف کا سب سے بڑا جرم تو 12 اکتوبر 1999ءکو ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارنا ہے‘ اس اقدام کو پہلے سپریم کورٹ اور بعدازاں پارلیمنٹ نے جائز قرار دے دیا۔ جنرل مشرف ایک بار پھر حکمرانی کی خواہش لئے پاکستان آئے تو ان کو کئی کیسز میں دھرلیا گیا جن میں انکی ضمانتیں ہو گئیں۔ انہوں نے چار حلقوں سے کاغذات جمع کرائے جو مسترد کردیئے گئے اور عدلیہ نے ان پر تاحیات الیکشن لڑنے کی پابندی بھی لگا دی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے کو کہا گیا تو نگران حکومت نے ایسا کرنے سے گریز کیا‘ تاہم مسلم لیگ (ن) نے کافی پس و پیش کے بعد کیس دائر کردیا۔ مشرف کی طرف سے خصوصی عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا لیکن اس کو عدلیہ نے پذیرائی نہ بخشی۔ مشرف نے یہ بھی کہا کہ ان کیخلاف مقدمہ صرف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چل سکتا ہے۔

آج نئے سال کے آغاز پر یکم جنوری 2014ءکو مشرف پر جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں ہائی ٹریزن کے تحت فرد جرم عائد ہو رہی ہے۔ ان سطور کی تحریر تک مشرف نے فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ عدالت کے روبرو پیش ہونگے یا نہیں‘ انہیں 24 دسمبر کو خصوصی عدالت میں پیش ہونا تھا لیکن سماعت اس وقت ملتوی کردی گئی جب مشرف کے عدالت آنے کے راستے میں دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔ گزشتہ روز بھی مشرف کے گھر کے قریب ایسا ہی مواد پائے جانے کی خبریں نشر ہوتی رہیں۔ ایک حلقہ کی رائے ہے کہ ”کمانڈو“ ایسی کارروائیاں خود کروا رہا ہے۔ بہتر ہے کہ انکے محل کی تلاشی لے کر ایسا مواد ضبط کرلے۔ اگر مواد نہ ملے تو افواہیں پھیلانے والوں کو یقیناً شرمندگی ہو گی۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن مشرف کو اب اس کیس کا سامنا کرنا پڑیگا۔

کمانڈر مشرف کبھی کہا کرتے تھے کہ ”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں“ اب بلاشبہ وہ خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کا اندازہ غلط نکلا‘ غداری کیس کی توقع نہیں تھی۔ فوج کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ بھی مشرف کے اندر کے خوف کا شاخسانہ ہے۔ اپنے ہی ملک کو جرنیلوں نے چار مرتبہ فتح کیا‘ اس میں فوج کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہر فوجی ایک ڈسپلن کا پابند جرنیلوں کی جانب سے ڈسپلن کی پابندی کو اپنے اقدام کی حمایت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سقوط ڈھاکہ قوم اور فوج کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے‘ یہ ہر فوجی کافیصلہ نہیں تھا۔ فوج کو ذلت و رسوائی سے دوچار کرنے کا فیصلہ چند جرنیلوں نے کیا‘ باقی فوج کے ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے سرنڈر کر دیا۔ طالع آزمائی پر بھی فوج ڈسپلن کے باعث خاموش رہتی ہے۔

مشرف کیس خصوصی عدالت میں چل رہا ہے‘ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری مشرف سے زخم خوردہ تھے‘ انہوں نے مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور اس بینچ میں شامل تھے‘ جس نے 12 اکتوبر 1999ءکے اقدام کو ویلیڈٹ کیا۔ وہ چیف جسٹس ہوتے ہوئے مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کے اندراج میں دلچسپی لے رہے تھے۔ اسے اگر تعصب کہا جائے تو بھی یہ کوئی ماورائے آئین و قانون نہیں تھا۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور عدالت پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بعض حلقے اس کیس کو زیادہ مضبوط بھی قرار نہیں دے رہے۔ فیصلے کا انحصار مشرف کی منجھے ہوئے وکیل شریف الدین پیرزادہ اور تجربہ کار حکومتی وکیل اکرم شیخ کی ٹیموں کے دلائل اور کیس لڑنے کا طریقہ کار پر ہو گا۔ مشرف کو 1999ءکے اقدام پر کٹہرے میں لایا جاتا ہے تو فوجی آمریت کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو جاتے۔ جب اس معاملے میں مشرف کے اقدام کو جائز قرار دینے والے ججوں اور پارلیمنٹیرین کا نام آتا ہے تو انکے حامی پینڈورا بکس کھلنے کا واویلا کرنے لگتے ہیں۔ پنڈورابکس کھلنے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے‘ اسکے کھلنے سے سسٹم درست اور آمریت کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوتے ہیں تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ آصف علی زرداری کے بقول ”دودھ پینے والا بلا قابو آگیا ہے“ تو اس کو تختہ دار پر لے جانے میں جلد بازی نہ کی جائے۔ فیصلہ کیا جائے کہ قومی مفاد اور جمہوریت کی مضبوطی کا کیا تقاضا ہے۔ میڈیا سے بھی مثبت کردار کی توقع ہے‘ مشرف پر غداری کا کیس چل رہا ہے۔ ایسے میں ملزم سے کیس کے حوالے سے انٹرویوز اور مذاکرے نشر اور شائع ہو رہے ہیں۔ کیا اس سے عدالتی کارروائی متاثر نہیں ہو سکتی؟

مشرف نے جس انداز سے فوج کے اپنے پشت پر ہونے کا تاثر دیا‘ فوجی ترجمان کی طرف سے ردعمل سے گریز عوامی حلقوں میں غلط تاثر پیدا کر سکتا ہے۔ فوج کی طرف سے کئی بار مشرف کیسز سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ فوج نہ صرف اس حوالے سے غیرجانبدار رہے گی بلکہ اس کا اظہار کرنے میں بھی کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیگی۔ بلاول بھٹو نے درست کہا ہے کہ مشرف کی طرف سے فوج کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش قابل نفرت ہے۔ تاہم بلاول نے یہ کہہ کر غداری کیس کا دفاع بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے‘ اپنی ”دانشوری“ عیاں کر دی ہے۔ کسی سے بھی اس کا قانونی دفاع کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔

Monday, 30 December 2013

طویل عمری جاوید چوہدری


خوشونت سنگھ بھارت کے معروف ترین صحافی اور مصنف ہیں‘ یہ اس وقت ننانوے سال میں داخل ہو چکے ہیں‘ یہ زندگی کی تقریباً سو بہاریں دیکھنے کے باوجود ابھی تک چاک و چوبند ہیں‘ یہ روزانہ سیر کے لیے جاتے ہیں‘ روز مطالعہ کرتے ہیں‘ روز لطیفے گھڑتے ہیں اور روز قہقہے لگاتے ہیں‘ یہ 80 کتابوں کے مصنف ہیں‘ ہفتے میں دو کالم لکھتے ہیں‘ یہ کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور کروڑوں لوگ یہ کالم پڑھتے ہیں‘ یہ پاکستانی علاقے میں پیدا ہوئے‘ دہلی میں رہے‘ پاکستان بننے سے قبل لاہور میں وکالت شروع کی‘ یہ لاہور میں قیام کو اپنی زندگی کا بہترین وقت قرار دیتے ہیں‘ یہ وکالت میں ناکام ہو گئے‘ یہ سفارت کے شعبے میں گئے‘ اس میں بھی دل نہیں لگا‘ یہ صحافت میں آ گئے‘ یہ یوجنا‘ السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا‘ نیشنل ہیرالڈ اور ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے‘ ہندوستان ٹائمز بھارت کا سب سے بڑا اخبار ہے‘ خوشونت سنگھ نے ’’ہسٹری آف سکھ‘‘ کے نام سے سکھوں کی تاریخ لکھی۔ ’’دہلی‘‘ ان کا شاندار ترین ناول تھا‘ ان کی بائیو گرافی’’سچ‘ محبت اور تھوڑا سا کینہ‘‘ 2002ء میں شائع ہوئی اور پوری دنیا میں دھوم مچا دی‘ خوشونت سنگھ نے لطائف کی کتابیں بھی تحریر کیں‘ یہ لطائف کی کتابوں کو اپنی بہترین تصنیف کہتے ہیں اور یہ 1980ء سے 1986ء تک پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے اور ہندوستان کی حکومت نے انھیں پدما بھوشن اور پدماوی بھوشن جیسے اعلیٰ ترین ایوارڈز سے بھی نوازا‘ خوشونت سنگھ بھارت بلکہ تمام سارک ممالک کے سینئر ترین اور سب سے بڑے صحافی اور مصنف ہیں‘ انھوں نے پچھلے دنوں ’’دی لیسنز آف مائی لائف‘‘ (میری زندگی کے سبق) کے نام سے اپنی آخری کتاب شائع کی‘ سردار صاحب نے یہ کتاب 98 سال کی عمر میں لکھی اور ان کا خیال ہے یہ ان کی آخری کتاب ثابت ہوگی‘ یہ کتاب ان کی زندگی کے فلسفے پر مشتمل ہے‘ یہ کیا سوچتے ہیں‘ زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے‘ جوانی اور بڑھاپا کیا چیز ہے‘ یہ خطہ کیا صورتحال اختیار کر رہاہے‘ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں اور عوام کو کیا کرنا چاہیے‘ بڑھتی ہوئی شدت پسندی کیا رخ اختیار کر رہی ہے‘ غالب کتنا بڑا شاعر تھا اور ہندوستان اور پاکستان نے اسے کیوں بھلا دیا‘ اردو زبان اور شاعری کیوں زوال پذیر ہے‘ مذہب کیا چیز ہے‘ مہاتما گاندھی کیا تھے‘ لکھنے کا طریقہ کیا ہے‘ صحافت کیا ہے‘ یہ ماضی میں کیسی تھی اور یہ اب کیا ہو چکی ہے‘ موت کیا چیز ہے‘ اور بڑھاپا کسے کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
میں سفر پر نکلتے ہوئے خوشونت سنگھ کی یہ کتاب ساتھ لے آیا اور مجھے جہاں وقت ملتا ہے‘ میں یہ کتاب پڑھنا شروع کر دیتا ہوں‘ یہ مختصر سی دلچسپ کتاب ہے‘ آپ اس کے بعض صفحات پر اپنی ہنسی نہیں روک پاتے‘ مثلاً خوشونت سنگھ ایک جگہ لکھتے ہیں‘ خالصتان کی تحریک کے دوران میں نے سکھ قیادت کی غلطیوں کی نشاندہی کی‘ میری اس جسارت پر سکھ برادری مجھ سے ناراض ہو گئی اور مجھے سکھوں نے دنیا بھر سے گالیوں بھرے خط لکھنا شروع کر دیے‘ سکھ مجھے راستے میں روک کر بھی برا بھلا کہہ دیتے تھے‘ میں یہ خط پڑھتا تھا اور ہنس پڑتا تھا‘ مجھے گالیوں سے بھرا ہوا کلاسیک خط کینیڈا سے کسی سکھ نے لکھا‘ یہ خط گورمکھی زبان میں تھا‘ صرف لفافے پر انگریزی کے چار حرف لکھے تھے ’’باسٹرڈ خوشونت سنگھ انڈیا‘‘۔ یہ خط کینیڈا سے پوسٹ کیا گیا اور میں بھارتی محکمہ ڈاک کی کارکردگی پر حیران رہ گیا کیونکہ محکمہ ڈاک نے سوا ارب کی آبادی میں موجود واحد باسٹرڈ کو تلاش کر کے یہ خط مجھ تک پہنچا دیا‘ میں بڑے عرصے تک یہ خط اپنے دوستوں اور ملاقاتیوں کو دکھاتا تھا اور اس کے بعد ان سے کہتا تھا‘ تم لوگ اس کے باوجود محکمہ ڈاک کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو‘ میں لوگوں کو بہت عرصے تک خط دکھاتا رہا لیکن پھر ایک دن میری بیوی نے غصے میں آ کر یہ خط پھاڑ دیا‘ میں اسے اپنی زندگی کا بہت بڑا نقصان سمجھتا ہوں‘ خوشونت سنگھ نے اس طرح اپنی ’’اینڈو اسکوپی‘‘ کا واقعہ بھی لکھا۔
آپ اس واقعے کے آخر میں بھی ہنسی نہیں روک سکتے‘ سردار صاحب نے شاندار اور بھرپور زندگی گزاری‘ یہ بڑی سے بڑی بات بڑی آسانی سے کر جاتے ہیں اور آپ یہ بات سن کر حیران رہ جاتے ہیں‘ سردار جی نے اس کتاب میں اپنی طویل زندگی کے بارہ اصول لکھے ہیں‘ یہ بارہ اصول ان کی سو سالہ بھرپور زندگی کا نچوڑ ہیں اور یہ نچوڑ اس کالم کا اصل محرک ہے‘ خوشونت سنگھ نے دعویٰ کیا‘ انسان کی لمبی عمر کا جینز کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے‘ آپ کے بزرگ اگر لمبی زندگی پاتے ہیں تو آپ کی عمر طویل ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں آپ لمبی عمر حاصل نہیں کر سکتے‘ آپ اگر بارہ اصولوں پر عمل کریں تو آپ میری طرح طویل عمر پا سکتے ہیں‘ سردار جی کا کہنا ہے‘ آپ روزانہ کوئی نہ کوئی کھیل ضرور کھیلیں‘ اسپورٹس آپ کا معمول ہونی چاہیے‘ آپ کوئی مشکل کھیل نہیں کھیل سکتے تو آپ اسکوائش‘ ٹینس‘ بیڈمنٹن یا گالف کھیل لیں‘ یہ ممکن نہ ہو تو آپ ایکسرسائز کریں‘ یہ بھی ممکن نہ ہوتو آپ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ تیز واک کریں‘ دوڑ لگائیں یا پھر تیراکی کریں‘ آپ کو روزانہ جسمانی مشقت بہرحال کرنی چاہیے‘ دوسرا اصول۔ آپ اگر کھیل نہیں سکتے تو پھر آپ روزانہ مساج کروائیں‘ یہ مساج سخت ہاتھوں سے کروایا جائے اور یہ پاؤں کی انگلیوں سے لے کر سر تک کیا جائے‘ یہ آپ کے خون کی گردش کو بہتر بنا دے گا اور یہ آپ کی صحت کے لیے اچھا ہو گا۔ تین‘ خوراک کا باقاعدہ معمول طے کریں‘ خوراک کم کھائیں لیکن اچھی کھائیں‘ خوشونت سنگھ نے خوراک کے معاملے میں اپنی مثال دی‘ ان کا کہنا ہے میں روزانہ صبح ساڑھے چھ بجے ناشتہ کرتا ہوں‘ دوپہر کو ہلکا لنچ کرتا ہوں‘ شام سات بجے ڈرنک کرتا ہوں اور آٹھ بجے رات کا کھانا کھاتا ہوں‘ میں دن کا آغاز امرود کے جوس سے کرتا ہوں‘ یہ ایک گلاس جوس کو معمول بنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ چار‘خوشونت سنگھ لا دین ہیں‘ یہ شراب کو غلط نہیں سمجھتے چنانچہ یہ شام کے وقت ایک پیک کو اپنی طویل عمری کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں‘ ان کا خیال ہے‘ اس سے ان کے خون کی گردش اور ہاضمے کا نظام ٹھیک رہتا ہے‘ ہم مسلمان ہیں‘ ہمارے مذہب میں شراب حرام بھی ہے اور گناہوں کی ماں بھی چنانچہ میں ان کے اس چوتھے اصول سے سخت اختلاف کرتا ہوں‘ ہم مسلمان ہیں چنانچہ ہمیں خون کی گردش کو بحال رکھنے اور بڑھاپے میں ہاضمے کا نظام بہتر رکھنے کے لیے طب نبویؐ میں سے کسی چیز کا انتخاب کرنا چاہیے جس سے ہمارا بڑھاپا صحت مند رہ سکے۔ پانچ‘ آپ ہر کھانا کھانے سے قبل خود کو سمجھائیں‘ میں نے زیادہ نہیں کھانا‘ خوشونت سنگھ کھانا اکیلے اور خاموشی سے کھانے کے قائل ہیں‘ ان کا کہنا ہے‘ آپ جب لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں تو آپ کھانے کے بجائے لوگوں کو انجوائے کرتے ہیں اور یہ آپ کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں‘ آپ اکیلے کھائیں گے تو آپ کھانے سے پوری طرح لطف اندوز ہوں گے۔ چھ‘ ایک وقت میں صرف ایک قسم کی سبزی یا گوشت کھائیں اور اس کے بعد کوئی دیسی چورن ضرور استعمال کریں۔ سات‘ بڑھاپے میں قبض سے بچ کر رہیں‘ یہ آپ کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے‘ آپ روز پیٹ صاف کر کے سوئیں۔ آٹھ‘ آپ کا بینک بیلنس ٹھیک ہونا چاہیے‘ بڑھاپے میں مناسب رقم آپ کو دماغی سکون دیتی ہے‘ آپ کے پاس اگر ضروریات اور علاج کے لیے رقم نہیں ہوگی تو آپ بے سکون ہو جائیں گے‘ آپ کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جائے گا اور یہ پریشانی آپ کو بہت جلد بستر مرگ تک لے جائے گی چنانچہ آپ بڑھاپے کے لیے مناسب رقم بچا کر رکھیں۔ نو‘ آپ غصے سے بچ کر رہیں‘ آپ روزانہ قہقہے لگائیں‘ غصہ آپ کے بڑھاپے کو خراب کر دیتا ہے۔ دس‘ آپ جھوٹ بالکل نہ بولیں‘ جھوٹ انسان کی عمر کھا جاتا ہے۔ گیارہ‘ سخاوت کریں‘ آپ کا دل کھلا ہو گا تو آپ کی عمر میں بھی اضافہ ہو گا اور آپ کا بڑھاپا بھی اچھا کٹے گا‘ یہ یاد رکھیں آپ اپنے تمام اثاثے دنیا میں چھوڑ کر جائیں گے چنانچہ اپنے ہاتھ سے دینا شروع کر دیں اور بارہ ‘کوئی نہ کوئی شغل ضرور پالیں‘ باغبانی کریں‘ موسیقی سنیں‘ ضرورت مندوں کی مدد کریں یا بچوں کو پڑھائیں‘ آپ اپنے آپ کو ہر وقت مصروف رکھیں‘ آپ کا دماغ اور ہاتھ دونوں ہر وقت مصروف رہنے چاہئیں‘ یہ طویل عمری کے لیے ضروری ہے۔
یہ خوشونت سنگھ کی طویل عمری کے بارہ اصول ہیں‘ ہمیں ان صولوں سے اختلاف ہو سکتا ہے‘ یہ ہمارے خیالات‘ مذہب یا لائف اسٹائل سے متصادم بھی ہو سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں ہم ان تمام اصولوں پر عمل کریں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے‘ خوشونت سنگھ کی عمر اس وقت ننانوے سال ہے‘ یہ آج بھی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں‘ دنیا بھر سے لوگ ان سے ملاقات کرنے آتے ہیں‘ کروڑوں لوگ ان کو پڑھتے ہیں اور ان کے خیالات کی داد بھی دیتے ہیں‘ ہم ان کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر یہ سچ ہے‘ یہ جھوٹ نہیں بولتے‘ یہ ایسی ایسی خوفناک بات سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے منہ پر کہہ دیتے ہیں جسے ہم تنہائی میں بھی بیان کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے‘ خوشونت سنگھ نے اپنی کسی کتاب میں لکھا‘ ان کی والدہ کی آخری خواہش شراب کا ایک گھونٹ تھا‘ خوشونت سنگھ نے ماں کی یہ آخری خواہش پوری کی‘ ماں نے گھونٹ بھرا اور اس کی روح پرواز کر گئی‘ یہ حلیے سے سکھ ہیں‘ انھوں نے گولڈن ٹیمپل پر حملے کے بعد اپنے سرکاری اعزاز بھی واپس کر دیے لیکن یہ اس کے باوجود خود کو لادین کہتے ہیں‘ یہ غالب اور اقبال کے عاشق ہیں اور انھوں نے ان دونوں کے کلام کا بڑا حصہ انگریزی میں ترجمہ بھی کیا‘ یہ لاہور سے عشق کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے جس نے لاہور کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی‘ یہ بڑھاپے کے باوجود اس کی والدہ کے ساتھ بہت برا سلوک کریں گے‘ یہ پنجابی بولتے ہیں‘ انگریزی میں لکھتے ہیں‘ پاکستان کو یاد کرتے ہیں اور آج کل کھڑکیاں دروازے کھول کر موت کا انتظار کرتے ہیں‘ یہ انتہائی دلچسپ انسان ہیں‘ ہم ان کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہمیں اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا‘ یہ ننانوے سال کے عملی انسان ہیں اور یہ اپنی اس عملیت کو اپنے ان بارہ اصولوں کے نتیجہ قرار دیتے ہیں‘ یہ ہنسنا اور ہنسانا بھی جانتے ہیں‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں جو انسان اپنے اوپر نہیں ہنس سکتا وہ کبھی اچھی اور بھرپور زندگی نہیں گزار سکتا‘ اس کی زندگی ‘زندگی کم اور سزا زیادہ ہوتی ہے چنانچہ ہو سکتا ہے ان کے یہ بارہ اصول یا پھر ان میں سے آٹھ دس اصول ٹھیک ہوں اور یہ واقعی طویل عمری اور شاندار عملی زندگی کے لیے ضروری ہوں‘ آپ اگر بوڑھے ہیں یا خوشونت سنگھ جیسی عملی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ ان اصولوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ڈربن: دوسرے ٹیسٹ میں جنوبی افریقا نے بھارت کو 10 وکٹوں سے ہرا کر ون ڈے کے بعد ٹیسٹ سیریز بھی 0-1 سے اپنے نام کرلی۔

ڈربن: دوسرے ٹیسٹ میں جنوبی افریقا نے بھارت کو 10 وکٹوں سے ہرا کر ون ڈے کے بعد ٹیسٹ سیریز بھی 0-1 سے اپنے نام کرلی۔
ڈربن میں کھیلے گئے میچ میں میزبان جنوبی افریقا نے بھارت کی جانب سے دیا گیا 58 رنز کا ہدف بغیر کسی نقصان کے پورا کرلیا، الویرو پیٹرسن 31 اور کپتان گریم اسمتھ 27 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے، اس سے قبل بھارت نے جب 68 رنز 2 کھلاڑی آؤٹ پر پانچویں اور آخری دن کے کھیل کا آغاز کیا تو بھارتی بیٹسمین جیسے بیٹنگ کرنا ہی بھول گئے جس کا افریقن بولروں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پوری ٹیم 223 رنز پر ڈھیر ہوگئی، اجنکیا رہانے 96 رنز کے ساتھ نمایاں رہے جبکہ جنوبی افریقا کے رابن پیٹرسن، ڈیل اسٹین اور ورنون فلینڈر نے بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا اور بالترتیب 4 اور 3،3 وکٹیں حاصل کیں۔
اس سے قبل بھارت نے ٹاس جیت کر اپنی پہلی اننگز کا آغاز کیا تو شیکھر دھون ایک بار پھر بڑا اسکور کرنے میں ناکام رہے اور 41 کے مجموعی اسکور پر 29 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے، پہلی اننگز میں مرلی وجے اور چیتیشور پوجارا نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور بالترتیب 97 اور 70 کی اننگز کھیلی، دونوں کھلاڑی ڈیل اسٹین کا شکار ہوئے، پہلی اننگز میں بھی اجنکیا رہانے نے شاندار نصف سنچری اسکور کی جس کی مدد سے بھارتی ٹیم مجموعی طور پر 334 رنز بنا سکی۔
جنوبی افریقا نے بھارت کے 334 رنز کے جواب میں اپنی پہلی اننگز میں 500 رنز بنا کر 166 رنز کی واضح برتری حاصل کی، اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آخری میچ کھیلنے والے جیکس کیلس نے سنچری اسکور کرکے میچ کو اپنے لئے انتہائی یادگار بنایا اور ٹیم کی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اے بی ڈیویلیرز نے 74، الویرو پیٹرسن نے 62 اور رابن پیٹرسن نے بھی 61 رنز بنا کر شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا، بھارت کے روندرا جدیجا نے ٹیسٹ کیریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 6 افریقی کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
واضح رہے کہ دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ میچ آخری دن کے آخری لمحات میں بغیر کسی فیصلے کے ختم ہوگیا تھا۔

Government wants to change the place of Madrisa.

Government wants to change the place of Madrisa.

مہنگائی اور کرپشن کو روکنے کا طریقہ کالم نگار | فاروق عالم انصاری

مہنگائی اور کرپشن کو روکنے کا طریقہ
کالم نگار | فاروق عالم انصاری
ماتحت کا نہیں صرف افسراعلیٰ کا چلتا ہے سو صوبے من مرضی نہیں کرسکتے تیل اورگندم کی قیمت مرکز مقرر کرتا ہے۔ باقی تمام اشیاءکی قیمتیں ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہیں میاں نوازشریف صوبہ پنجاب اور مرکز میں حکمران ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں بھی انہیں ہی حکمران سمجھیں اس طرح تحریک انصاف کے چیئرمیں عمران خان کا پنجاب کے شہر لاہور میں مہنگائی کے خلاف احتجاج غیر مناسب نہیں۔ ناصر باغ لاہور میں احتجاجی ریلی سے ایک روز پہلے عمران خان نے اعلان کیا کہ اگر کل احتجاجی ریلی کو روکا گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ریلی روکی نہیں گئی۔ سو مہنگائی کے خلاف عمران خان کی ریلی کامیاب رہی۔ حکومتی پارٹی ریلی میں شرکاءکی تعداد گن گن کر خوش ہو رہی ہے۔ لیکن عمران خان نے احتجاج کرنا تھا سو کرلیا۔ حکمرانوں نے سن لیا اور آرام سے دوبارہ گہری نیند سو گئے۔ پاکستان میں خواب خرگوش کے مزے یا حکمران لوٹتے ہیں یا پھر شاید خرگوش۔ آرمی چیف شریف میں اور ایئر چیف بٹ بہادر‘ سوراوی آج کے حکمرانوںکے لئے چین لکھتا ہے لیکن یقین کیجئے حکمرانوںکے لئے چین ہی چین نہیں ہے۔ سیلاب میں نشیب و فراز سبھی جگہ پانی برابر ہو جاتا ہے۔اب مہنگائی صرف غریبوں کا مسئلہ نہیں رہی۔ آہستہ آہستہ مہنگائی کا سیلاب امیروں کے محلوں میں بھی پہنچ گیا ہے۔ لاہور میں مہنگائی کے خلاف ریلی میں عمران نے اپنا مہنگائی کے خلاف ایجنڈا بیان کرنا تھا‘ سو کلام شاعر بزبان شاعر سننے ہم بھی لاہور پہنچ گئے۔ ان دنوں عمران خان سے بدگمان ان کے سابق کالم نگار ہارون الرشید ایک نئی سیاسی جماعت کے ظہور کا بڑے تواتر سے ذکر کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز نے بھی اپنے تازہ کالم میں پاکستان میں سیاسی خلاءکا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اس سیاسی خلاءکو عوام کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کے محدود نظریہ اور ایجنڈ ے کو خاص طور پر لکھا ہے عمران خان صرف ٹیکس کلیکشن اور کرپشن کی روک تھام سے مکل میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ آپ ٹیکس کلیکشن اور کرپشن کی روک تھام سے معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ اسے محدود نظریہ اور ایجنڈانہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ہاں ٹیکس کلیکشن کی صورتحال یوں ہے کہ نصف کے قریب ارکان پارلیمنٹ سروے سے ٹیکس گزاری نہیں پھر کرپشن کے معاملات کچھ یوں کہ سندھی وزیراعلیٰ واویلا مچا رہے ہی کہ ترقیاتی فنڈ کے استعمال میں لائے گئے۔660 ارب روپے کہیں لگے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ پاکستان میں ابھی تک ٹیکس کلچر پیدا نہیں ہو سکا۔ امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں Death duty 40 فیصد ہے یہ وہ ٹیکس ہے جو مرحوم کے ورثاءکو جائیداد کی منتقلی سے پہلی ادا کرنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جا کر متوفی کی جائیداد ان کے نام ہوتی ہے۔

اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ عمران خان کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ اس صوبہ میں کالا باغ ڈیم کے لئے فضا سازگارکریں۔ درست سمت کا تعین کرنا اور قوم کو اس طرف گامزن کرنا ہی ایک قومی رہنما کا کام ہے۔ آج کالا باغ ڈیم کے مردہ جسم میں صرف عمران خان ہی جان ڈال سکتا ہے۔ انہیں اس طرف ضرور توجہ دینی چاہئے۔ عمران خان نے تیس لاکھ ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کی ہے۔ یہ لوگ بڑے گھروں میں رہتے ہیں‘ ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں اور یہ آئے روز غیر ملکی دوروں پر گئے ہوتے ہیں۔ عمران خان نے ان سے ایک لاکھ روپے فیس نکلوانے کی بات کی ہے۔ اس طرح تین سو ارب روپے اکٹھے ہو جائیں گے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی اتنی رقم کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دے رہے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بات تو چل نکلے گی پھر ان تیس لاکھ لوگوں میں زمیندار طبقہ بھی شامل ہے جن پر انکم ٹیکس کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ زرعی ٹیکس واحد ایشو ہے جس پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے پانی کی کمیابی‘ ڈیزل اور کھادوں کی مہنگائی‘ بیجوں کی عدم دستیابی‘ آڑھتیوں کی بدمعاشی حتیٰ کہ چولہا ٹیکس تک کا ذکر آتا جاتا ہے لیکن زمین کے ٹھیکے کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جو کہ سالانہ چالیس ہزار سے ایک لاکھ روپے فی ایکڑ پہنچ چکا ہے۔ اس انکم پر کوئی انکم ٹیکس نہیں ہے جائیداد کے کرایہ پر ٹیکس کی شرح بھی بہت کم ہے۔اسے پچیس فیصد سالانہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ بڑے گھروں کے حق میں صرف رزق حلال کی دلیل کافی نہیں۔ میرے حضور نے فرمایا کہ وضو میں پانی کے استعمال میں احتیاط برتو‘ چاہے تم دریا کنارے ہی وضو کیوں نہ کر رہے ہو۔ پھر فقہ میں ایک قانون حجر بھی ہے۔ جس کے تحت ریاست اپنے کسی شہری کو رزق حلال کو بھی اس طرح استعمال میں لانے سے روک سکتی ہے جس سے دیگر شہریوں کو دلآزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ کیا فرماتے ہیں علماءدین بیچ اس مسئلہ کے ایک فرد خالصتاً اپنے ذاتی استعمال میں کتنی زمین لا سکتا ہے۔ کیا ایک فرد کئی ایکڑوں پر گھاس محض اپنی چہل قدمی کےلئے اگا سکتا ہے؟ مہنگائی اور کرپشن پر قابو پانے کےلئے ہر معاملہ اور پہلو پر غور واجب ہے۔ گورنر ہاﺅس کےساتھ اسی سائز کے پرائیویٹ گھروں کی مذمت بھی ضروری ہے۔ ہمارے ایک پڑوسی ملک بھارت میں ”عام آدمی پارٹی“ اور اس کے لیڈر ارونڈ کجری وال 1000CC گاڑی پاکستانی عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے ادھر عمران خان کے ارد گرد نظر آنےوالے ”بے روزگار“ سے نوجوان بھی 1000CC گاڑی پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ سابق ایرانی صدر احمدی نثراد کی سادہ زندگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ شہنشاہوں کے ملک ایران کے سیاسی کارکنوں نے شاہی کروفر کی بجائے سادہ انداز زندگی اپنایا ہے اور یہی ایک طریقہ ہے مہنگائی اور کرپشن کو روکنے کا یہ 2013ءکا آخری کالم ہے‘ اللہ کرے نیا برس خوشگوار تبدیلیاں لے کر آئے۔ باقی ہم کیا اور ہماری بساط کیا....

اگلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں

اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا
3

بلال یٰسین کا ساہیوال کا دورہ، اخرا جات 3 کروڑ، وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا !

پیر ‘ 26 صفر المظفر 1435ھ ‘30 دسمبر 2013ئ

بلال یٰسین کا ساہیوال کا دورہ، اخرا جات 3 کروڑ، وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا !

صوبائی وزیر خوراک آجکل مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کو حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سستے بازاروں کے طوفانی دوروں میں مصروف ہیں اور پنجاب کے متعدد شہر ان کے طوفانی دوروں کی لپیٹ میں ہیں۔ اخبارات میں ہر روز لاہور کے مختلف بازاروں اور ہوٹلوں اور ریستورانوں پر چھاپوں کی خبریں اور تصاویر اور ٹی وی چینلز پر جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں اور دھڑا دھڑ جرمانوں کی اطلاعات ملتی ہیں مگر لگتا ہے اس بار ان کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا اور ان کے کارندوں کے ساتھ ایک اور صوبائی وزیر اور چیف سیکرٹری نے ان کی ہمرکابی کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کے ساتھ ہیلی کاپٹرپر طوفانی دوروں میں بھی سیر و سیاحت اور افسرانہ ٹھاٹ بھاٹ کے مظاہروں پر زیادہ توجہ دی اور نتیجہ کیا نکلا وہی ”ڈھاک کے تین پات“ ساہیوال والے بھی بچے نہیں نکلے، انہوں نے سابقہ پیپلز پارٹی دور کے وزراءکے سیلاب زدگان کے جعلی متاثرین کیمپوں کے دورے کی یاد تازہ کرا دی اور جھوٹ موٹ کا ماڈل بازار کھڑا کر کے اعلیٰ انتظامات کا صوبائی وزیر خوراک کو نظارہ کرایا۔ جوں ہی وزیر موصوف بازار سے رخصت ہوئے یہ عارضی نمائشی طور پر لگایا گیا بازار پھر ویران گراﺅنڈ میں بدل گیا اور تمام دکاندار و خریدار گدھے کے سینگھ کی طرح غائب ہو گئے۔

”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے“ اب وزیر اعلیٰ کو جو علم ہُوا تو انہوں نے اس شاہانہ دورے کا نوٹس لیا ہے جو 3 کروڑ میں پڑا حالانکہ یہ تماشا تو لاہور میں بھی بارہا ہُوا ہے۔ ادھر وزیر حضرات غائب ہوتے ہیں ادھر نمائشی اقدامات ہَوا ہو جاتے ہیں۔ اب حساب کتاب تو وزیر صاحب اور ان کے محکمے کو بھگتنا ہوں گے البتہ ان کے ہمرکاب جملہ احباب دورے کے مزے اُڑانے کے بعدڈکاریں لے کر کھایا پیا ہضم کریں گے۔

ریلیوں کے ستائے ہوئے لوگ کالم نگار | ڈاکٹر تنویر حسین


  • ریلیوں کے ستائے ہوئے لوگ
    کالم نگار | ڈاکٹر تنویر حسین

    ہمیں ریلیاں نکالنے کا چسکا پڑ چکا ہے۔ کچھ دن ریلیاں سڑکوں پر نظر نہ آئیں تو سیاسی پارٹیوں کے ووٹروں اورسپورٹروں کے بدن ٹوٹنے لگتے ہیں۔ انہیں انگڑائیاں آنے لگتی ہیں۔ ان کی طبیعتیں اوازار رہنے لگتی ہیں۔ ریلیوں میں شریک ہونے والے لوگوں اور تابڑ توڑ چائے نوشوں اور سگریٹ نوشوں میں بڑی گہری مماثلت پائی جاتی ہیں۔ یہ تو ہمارے ان گمان میں بھی نہیں تھا کہ مرشد عمران خان نیٹو سپلائی روکنے کے بعد موئی مکی بے چاری مہنگائی پر ڈرون حملہ فرمائیں گے اور اتنے زور شور کے ساتھ کہ جیسے لاہور کوئی پانی پت کا میدان ہو اور بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان ٹکر ہو۔ جوش ملیح آبادی اگرچہ بڑے شاعر ہیں لیکن یار لوگ ان کے بارے میں کہتے سنے گئے ہیں کہ جوش ہاتھی پر سوار ہو کر جاتے اور پدی مار کر لاتے۔ مرشد نے اچانک گھی کے کنستروں، آٹے کے توڑوں، چینی کی بوریوں اور چائے کے ڈبوں کے خلاف ریلی کے بجائے سونامی نکال دیا ہے۔ ہمارے محترم کالم نگار محترم فضل حسین اعوان سونامی کی اصلاح کی تقطیع 100 نامی کر چکے ہیں لیکن مرشد عمران خان اس تقطیع پر غور نہیں فرماتے۔ گھی کے کنستر آٹے کے توڑے‘ چینی کے بورے‘ چائے کے ڈبے اور پٹرول اپنی اپنی زبانوں میں کہتے ہوں گے کہ لاہور ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ فوڈ اسٹریٹوں‘ کھانے کے تھڑوں اور ریڑھیوں کا گڑھ ہے۔ عالم یہ ہے کہ آپ کسی بڑے یا چھوٹے سے چھوٹے ہوٹل یا کیفے ٹیریا میں چلے جائیں‘ کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملے گی اور مہنگائی بغلیں جھانکتی دکھائی دے گی۔ آج مہنگائی کی ریلی کا منہ توڑ جواب حضرت کیلا نے اکیلے ہی دے دیا ہے۔ ایک صاحب نے مہنگائی کے خلاف ریلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزہ تو جب تھا عمران خان اس وقت ریلی کا اہتمام کرتے جب کیلا عام آدمی کو منہ نہیں لگاتا تھا۔ یعنی اس کا بھاﺅ ڈھائی تین سو روپے درجن چلا گیا تھا۔ اب کیلا اتنا سستا ہے کہ فقیروں کی طرح اللہ کی زمین پر بیٹھا اور ریڑھیوں پر مارا مارا پھرتا نظر آتا ہے اور میر تقی میر کا مصرع بھی سناتا ہے:

    ہم فقیروں سے کج ادائی کیا؟

    میاں نواز شریف صاحب کے پرانے دور میں چھوٹے گوشت کے قصابوں نے ہڑتال کر دی تھی۔ بڑے لوگوں نے چھوٹا گوشت کھانا کہاں چھوڑا تھا۔ یہ لوگ مضافات سے بکرے منگوا لیا کرتے تھے۔ مہنگائی کا علاج ریلیوں، لیلیوں، احتجاجوں اور دھرنوں میں نہیں ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ لوگ اپنے منہ کے ذائقوں اور معدوں کی فرمائشوں کے خلاف کوئی زبردست ریلی نکالیں۔ لاہور میں آپ کسی چکن فروش کے پاس کھڑے ہو کر مشاہدہ کر لیں، گاہک اس طرح نظر آئیں گے، جیسے وہ کسی پیر صاحب کے آستانہ عالیہ پر کھڑے ہوں۔ ہمارے شہر میں بیکریوں کی تعداد دیکھیں اور ان بیکریوں میں سونے کے بھاﺅ ملنے والی اشیائے خورد و نوش دیکھیں۔ آج تک ہم نے کسی بیکری کی کسی آئٹم کے خلاف ریلی نکلتی نہیں دیکھی۔ یہ طلب اور رسد کا چکر ہے۔ ہمارے ہاں لوگ صرف تیل، آٹے، چینی اور دال گوشت ہی کے ستائے ہوئے نہیں ہیں یہاں تک ایسے ایسے ظلم ہو چکے ہیں کہ مظلومین عدالتوں اور تھانے کچہریوں میں دھکے کھاتے کھاتے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ایک پنجابی فلم آئی تھی ”ظلم دا بدلہ“۔ یہاں ظلم تو اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ عوام تو اس کے پارٹ ٹو ”بدلے“ کے منتظر ہیں۔ ہمارے ہاں ریلیوں کی سنچریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ان ریلیوں سے اب تک عوام کو کیا حاصل ہوا ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور ابھی تک ہم نے احتجاج کا طریقہ نہیں سیکھا۔ مہذب ممالک میں کسی ایک دن کسی ایک جگہ احتجاج کیا جاتا ہے۔ یہاں حکومت اور عوام دریا کے دو کناروں کی مانند ہیں۔ یہاں احتجاج کرنے والوں کے مسائل سنجیدگی سے سننے اور حل کرنے کی بجائے ان پر لاٹھی چارج کر دیا جاتا ہے۔ اور ان کے خلاف کیس بنا دیے جاتے ہیں۔ ہمیں احتجاج کرنے کے لئے ایک خاص دن اور خاص جگہ مقرر کرنی چاہئے۔ جن کے پاس اختیارات ہیں وہ بھی عوام کو خبریں پہنچانے کے کام پر مامور ہیں۔ یہاں تو ریلیوں پر ریلیاں نکلتی ہیں اور عوام ان ریلیوں کے ستائے ہوئے بھیڑ بکریوں کی طرح کبھی ایک راستے سے منہ موڑ کر دوسرے راستے پر‘ پھر تیسرے راستے پر‘ پھر چوتھے اور نہ جانے کہاں کہاں سے خجل خوار ہو کر گھروں میں پہنچتے ہیں۔ مسائل کی نشاندہی اخبارات کا کام ہے۔ ان کا حل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس ہونا چاہئے۔

”خادم پنجاب“ کے ایل آر سی منصوبے کا آغاز.... کالم نگار | طاہر جمیل نورانی


”خادم پنجاب“ کے ایل آر سی منصوبے کا آغاز....
کالم نگار | طاہر جمیل نورانی

وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف جو بیک وقت ”خادم پنجاب“ کی اعزازی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور ایسے ایسے مشکل ترین کاموں کو آسان بنانے میں مصروف ہیں کہ جن کے بارے میں اہل پنجاب نے کبھی سوچا نہ تھا....؟میاں صاحب کے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے احکامات کو دیکھتے ہوئے لگتا یوں ہے جیسے صوبہ پنجاب کے عوام اور بالخصوص ”لاہوریوں“ کو انہوں نے اپنے ٹینو¿ر میں وہ کچھ کر دکھانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے جو پہلے پرویزالٰہی بھی نہ دکھا سکے....؟

شہبازشریف چاہتے ہیںکہ اس بار شہری عوام کی ہی نہیں‘ دیہی عوام کی وہ مشکلات بھی آسان کر جائیں جن سے وہ سالہاسال سے دوچار چلے آرہے ہیں....؟اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ وہ ”اہلِ پنجاب“ کا ہر مسئلہ حل کرنے جا رہے ہیں؟ بحیثیت وزیراعلیٰ ان کے بعض ترقیاتی منصوبے جس نے اندرون اور بیرون ملک ”جنگلا بس پراجیکٹس“ کے نام سے بے پناہ شہرت حاصل کی‘ عوامی ٹرانسپورٹ کی تیزرفتاری کا یہ ایک انتہائی مہنگا ترین منصوبہ تھا جو پایہ¿ تکمیل تک پہنچ گیا.... مگر! اس منصوبے کا مستقبل کہاںتک روشن ہے ایسا الجھا اور بے ترتیب سا سوال ہے‘ جو عوامی سیاسی حلقوں میں آج بھی زیربحث ہے۔اسلام آباد کا نیا زیرتعمیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ جس کے تعمیری کام کا آغاز 1984ءمیں ہوا.... جس کیلئے 35 سو ایکڑ پر مشتمل سستی ترین اراضی کو مہنگے ترین داموں خریدا گیا اور یوں جس ایئرپورٹ کی تکمیل پر 37 ملین روپے کا اس وقت تخمینہ لگایاگیا.... اب اس کی لاگت 83ملین روپے تک کیسے پہنچ گئی ایسا وہ دوسرا سوال ہے جس کاجواب قوم جاننے کیلئے بے قرار ہے۔لوگ بے چارے چونکہ آلو‘ گوبھی‘ پیاز‘ لہسن اور ٹماٹر کی آسمان کو چھوتی قیمتوں سے پہلے ہی ادھ موئے ہو چکے ہیں‘ اس لئے ان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ وزیراعلیٰ کے ہر قومی منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر کوئی تبصرہ کریں۔

میاں صاحب نے تعلیم دوستی کے حوالے سے جن طلباءکو کمپیوٹر لیپ ٹاپ ”کنِڈلیں‘ اور پتہ نہیں جدید الیکٹرانک کمیونیکیشن کی مد میں کیا کیا مفت تقسیم کیا ‘ایک احسن اقدام ہے مگر! جن مستحق طلباءکو واقعی ”لیپ ٹاپ“ درکار تھے انہیں نظرانداز کر دیا گیا یا پھر ان طلباءکی وزیراعلیٰ کی ٹیم تک رسائی ہی نہ ہو سکی جو آج بھی اسی انتظار میں ہیں کہ ان تک بھی وزیراعلیٰ کا کوئی ایسا ”آٹومیٹک“ حکم آجائے جس سے ان کی جائز خواہش پوری ہو سکے....؟؟؟

اب حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے ایک 66 سالہ پرانے ‘ الجھے اور بے ترتیب مسئلہ کو سلجھانے کیلئے فوری طورپر ایکشن لینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے "Land Record Computerisation" کے اس تاریخی منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے واقعی شہبازشریف نے ایسا مثبت قدم اٹھایا ہے جس سے زمینداروں اور کاشتکاروں کو محکمہ مال کے افسران کو رشوت دینے کے عمل سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔یوں تو یہاں پر سرکاری اور نیم سرکاری محکمہ ”کرپشن“ کا بُری طرح شکارہے مگر محکمہ مال میں رشوت کی اپنی ایک الگ ہی دنیا ہے.... پٹواری‘ گرداور‘ قانون گو‘ نائب تحصیلدار‘ ڈپٹی ڈسٹرکٹ اور ڈسٹرکٹ ریونیو افسران اور ان کے ماتحت دفتری عملے‘ سائلین کی رجسٹریوں‘ فرد اراضی و انتقال اراضی کے حصول کے علاوہ ”اشتمال اراضی“ کی مشکل ترین شقوں میں الجھا کر گزشتہ 66 برس سے جس طرح لوٹتا چلا آرہا ہے.... ”بی اے‘ ایم اور پی ایچ ڈی تو دور کی بات‘ اراکین اسمبلی اور وزراءتک اس محکمے کا بال تک بیکا نہیں کر سکے....؟ اب ایک سچا واقعہ بھی سنتے چلئے....میں نے اپنے علاقہ کے پٹواری کے نام ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر کی جانب سے بھجوائی درخواست کے ریمارکس کی تصدیق کروانا تھی.... میری درخواست اُردو میں تھی مگر اس پر ڈی ڈی او نے ریمارکس انگریزی میں لکھ دیئے۔ وہ درخواست لیکر جب میں اپنے ”گریجوایٹ پٹواری“ کے دفتر پہنچا ، اس گریجویٹ پٹواری نے مجھے اشارہ کرتے ہوئے دفتر سے باہر چلنے کو کہا اور پھر جونہی ہم باہر آئے ‘اس نے رازداری سے کہا کہ اس درخواست پر ”بڑے صاب“ کے انگریزی میں لکھے ریمارس اسے پڑھ کر سنانے کے بعد سمجھا بھی دوں....؟؟ مگر آپ تو گریجوایٹ ہیں.... میں نے پٹواری کے سوال پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے کہا!اوسر جی! چھوڑیئے بی اے وی اے کو.... آپ میرا کام کریں.... میںآپ کا کام کرنے کی تیاری کروں....؟؟؟میں نے مسکراتے ہوئے انگریزی میں لکھی عبارت سنائی اور اس نے ایک سوالیہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ بس اتنا سا کام تھا.... پتہ نہیں ان ”بڑے صابوں“ کو کیا ہو گیا ہے۔ بھلا اس درخواست پر اتنی مشکل انگریزی لکھنے کی ضرورت کیا تھی....؟؟ چلئے.... چھوڑیئے.... میں نے تصدیق کردی ہے.... لایئے میری خدمت کا صلہ! .... خدمت کا صلہ وہ کیا.... ؟ میں نے انجان بنتے ہوئے کہا! حضور! آپ نے چونکہ انگریزی پڑھ دی ہے اس لئے ”خدمتی صلہ“ میں ڈسکاﺅٹ دے رہا ہوں.... ورنہ ایسے ”کاموں“ کے بارے میں زیادہ سوال و جواب نہیں کیا کرتے؟ لایئے نکالئے.... بس پھر کیا تھا۔ میں نے رشوت دی.... گریجوایٹ پٹواری نے لے لی.... مگر! ہم دونوں جہنمی ٹھہرے! میں نے ازراہ مذاق اسے کہا! وہ کیسے! اس نے مجھے گھورتے ہوئے سوال کیا....؟؟ اسلئے کہ رشوت دینے اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں.... یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے....؟؟ میں نے اسے جواب دیا۔مگر سر جی! کیا آپ کیلئے یہ کم انعام ہے کہ آپ ”کام“ کیلئے آئے اور میں نے فوری طورپر دیگر سائلین کی پروا کئے بغیر ”آپ کا کام“ کر دیا.... اس کے بعد اگر آپ سے اپنی محنت کا صلہ مانگا ہے تو اس میں ”جہنم“ کہاں سے آ گئی....؟؟؟ اس نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا!خوشی مجھے اب اسلئے ہے کہ وزیراعلیٰ کے ”لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن“ پروگرام سے کم از کم رشوت دینے اور رشوت لینے والا دونوں بچ جائینگے 

مسلم لیگ کا یومِ تاسیس اور تقسیم کی داستان کالم نگار | رانا زاہد اقبال


مسلم لیگ کا یومِ تاسیس اور تقسیم کی داستان
کالم نگار | رانا زاہد اقبال

1905ء میں لارڈ کرزن نے خالصتاً انتظامی وجوہ کے پیشِ نظر صوبہ بنگال کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا تھا جس کے خلاف ہندوؤں نے شدید احتجاج شروع کر دیا پرانگریز سرکار نے ہندوؤں کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے اور بنگال کی تقسیم کا یہ منصوبہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو متحد اور منظم ہونے کی ضرورت کا احساس دلایا چنانچہ 30دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی جانب سے بلائے گئے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اس اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔ اگر چہ 1927ء میں جدا گانہ انتخابات اور سائمن کمیشن کے معاملے پر مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ لیکن4مئی1934ء کو مسلم لیگ کی مشترکہ کونسل کا اجلاس دہلی میں ہوا جس میں مسلم لیگ کے تمام دھڑوں نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا جو کہ 10اکتوبر 1913ء میں مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسن کی دعوت پر باقاعدہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ لہٰذا قائدِ اعظم کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر اور حافظ ہدایت حسین کو سیکریٹری منتخب کر لیا گیا۔ قائدِ اعظم کی مسلم لیگ میں شمولیت سے مسلم لیگ کو ایک نئی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی۔ جس کے بعد وہ تاریخ ساز دن آیا جب مسلم لیگ کے 27ویں اجلاس منعقدہ 23مارچ1940ء کو لاہور میں قرار دادلاہور کی منظوری کے بعد قائدَ اعظم نے اپنی تمام مصروفیات کو خیر آباد کہہ کر حصولِ پاکستان کے لئے جد و جہد تیز کر دی۔ جس کے نتیجے میں 14اگست 1947کوپاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ قائدِ اعظم نے 1948ء کے اوائل میں خالق دینا حال کراچی میں یہ کہہ کر مسلم لیگ کی صدارت سے استعفٰی دے دیا تھا کہ بحیثیت گورنر جنرل میں اب مسلم لیگ کا صدر نہیں رہ سکتا لہٰذا جماعت کا نیا صدر منتخب کر لیا جائے۔ یہیں سے مسلم لیگ کی صدارت کے لئے رسہ کشی شروع ہو گئی۔ قائد کی وفات اور لیاقت علی کی شہادت کے بعد اقتدار کی رسہ کشی میں ہولناک واقعات سامنے آئے۔ مسلم لیگ ہر صوبے میں انتشار کا شکار ہو گئی۔

1957ء میں سردار عبدالرب نشتر کی وفات کے بعد عبدالقیوم خان کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیاجو کہ متحدہ مسلم لیگ کے آخری صدر تھے۔ اس وقت پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے عبدالقیوم خان سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر وہ ہماری پالیسی کے مطابق چلیں تو ہم انہیں مستقبل کا وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ کو اقتدار دلانے میں معاونت کر سکتے ہیں۔ خان عبدالقیوم خان کے انکار کے بعد 1958ء میں مارشل لاء لگ گیا۔ وہ وقت تھا جب پہلی بار امریکہ اور فوج کی مداخلت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی لیکن جیسے ہی 1962ء میں پابندی اٹھی مسلم لیگ کے دو گروپ بن گئے۔ ایک نے صدر ایوب خان کو دوسرے نے خوا جہ ناظم الدین کو اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ خواجہ ناظم الدین کی وفات کے بعد کونسل مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی ایک دھڑے کی قیادت ممتاز دولتانہ اور دوسرے کی سردار شوکت حیات کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے مرکزی انتخابات جو وائی ایم سی ہال لاہور میں ہوئے دھاندلی کے ریکارڈ توڑ دئے گئے جس پر خان عبدالقیوم خان نے بطور احتجاج مسلم لیگ قیوم بنا لی ۔

ادھر مشرقی پاکستان میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اس طرح جن لوگوں نے پاکستان کے قیام میں بھرپور حصہ لیا تھا انہیں غدار اور غیر محبِ وطن قرار دے کر میدانِ سیاست سے باہر کیا جا رہا تھا۔ اے کے فضلِ حق، حسین شہید سہروردی، مجیب الرحمٰن اور دیگر راہنما تشدد کا نشانہ بن رہے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کا تقریباً صفایا ہو گیا اور مشرقی پاکستان میں تحریکِ پاکستان کی قد آور شخصیات ہارگئیں۔ اس کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان پیش آگیا۔پاکستان میں مسلم لیگ کی تقسیم جاری رہی اور ضیاء الحق کے مارشل لاء دور تک مسلم لیگ نو دس گروپوں قاسم ، خواجہ خیرالدین ، پگاڑا ، چٹھہ، لیاقت ، قیوم، جونیجو ، کنہاروی اور آگے چل کر نواز، پھر مشرف کے مارشل لاء کے دوران ق اور ہمخیال میں تقسیم ہو گئی۔
11

فیس بک پر رابعہ کا نشان پوسٹ کرنے والے ہوشیار

Rabia sign banned in Egypt

پیپلز پارٹی نے پنجاب کیوں کھویا۔۔۔۔۔

پیپلز پارٹی نے پنجاب کیوں کھویا۔۔۔۔۔
!!!!!!!!!!!!!!!!
(عثمان حسن زئی)
بلاول بھٹو زرداری عملی سیاست میں قدم رکھنے سے قبل دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کوللکاررہے ہیں۔وہ نوجوان ہیں، اس لیے اپنی تقریروں میں بھی خوب گرج اور برس رہے ہیں۔27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں ہونے والے جلسے میں بلاول نے عمران خان اور ن لیگ کی قیادت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ عمران خان کو نیٹو سپلائی روکنے اور ڈرون حملوں کے خلاف تحریک چلانے پر ’بزدل خان‘ کا لقب بھی اُنہوں نے ہی دیا، پی پی چیئرمین نے عمران خان کو حکیم اللہ محسود کا ساتھی بھی قرار دیا۔ جہاں تک ن لیگ کی قیادت پر تنقید کی بات ہے، تو اس حوالے سے ان کے خطاب کو تضادات کا مجموعہ کہنا بہتر ہوگا۔ ایک جانب بلاول کہتے ہیں کہ شیر بھی وہی دودھ پی کر پلا جو جو دہشت گردوں نے پیا دوسری جانب وہ جمہوریت کی آڑ میں شیر کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کرتے رہے۔
انتخابات میں اپنی جماعت کی ناکامی پر روشنی ڈالتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف تھی اس لیے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اگر واقعتاً ایسا ہوتا تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج سندھ میںپیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب نے ہی پیپلزپارٹی کو نچلے اور درمیانے طبقے کی جماعت بناکر ابھارا۔ 70ءکے انتخابات میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے والے 61 ارکان قومی اسمبلی کا تعلق درمیانے طبقے سے ہی تھا۔ جب کہ سندھ سے ان انتخابات میں پی پی پی کے پلیٹ فارم سے جیتنے والوں کا تعلق جاگیردار خاندانوں سے تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ پنجاب ہی تھا جس نے پی پی پی کو ایک نظریاتی اور طبقاتی شناخت فراہم کی۔اگر ہم ماضی کے انتخابات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ پنجاب ہی تھا جس نے 1970ئ، 1977ئ، 1988ئ، 1993ءاو 2008ءمیں پیپلزپارٹی کو وفاقی حکومت بنانے کے قابل بنایا۔سوال یہ ہے کہ 2013ءکے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑااور کیا بلاول کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو اس شکست کا ذمہ دار قراردینا درست ہے؟اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پی پی پی کا پنجاب میں1988ءکے انتخابات کے بعد کردار نظریاتی بنیادوں سے ہٹنا شروع ہوا۔ 1988ءسے 2008ءتک کے انتخابات میں اس جماعت نے پنجاب سے جاگیردارانہ قیادت کو اہم کردار ادا کرنے کے مواقع دیے۔ اس حکمتِ عملی نے پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچایا۔ جنوبی پنجاب سے لغاری، قریشی، گیلانی اور دیگر روایتی سیاسی خاندان پی پی کے پلیٹ فارم سے ملکی سیاست میں آگے آئے، تو اس کو بھی پی پی پی کی نظریاتی کی بجائے خاندانوں کی سیاست کی پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں پی پی کی نااہلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلا تحریک ِانصاف نے پُر کردیا۔ اس کا ووٹ پی ٹی آئی کی جانب گیا جس کا خمیازہ اسے انتخابات میں بھگتنا پڑا۔ 2008ءکے الیکشن کے بعد پنجاب پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کرگیا۔ جن لوگوں کو صوبائی قیادت سونپی گئی ان کا تعلق جاگیردار طبقے سے تھا اور وہ اپنے حلقوں تک محدود تھے۔ ان لوگوں نے پارٹی کے قومی یا صوبائی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی بجائے وزارتوں کی طاقت کو بھی اپنے حلقوں تک محدود کیے رکھا۔دوسری جانب سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، کیوں کہ سندھ میں ذوالفقار بھٹو مرحوم سے جذباتی لگاﺅ اور ان سے عقیدت کی وجہ سے لوگ اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جب کہ یہاں قیادت بھی جاگیرداروں کے ہاتھوں میں ہے۔
پی پی پی کے کرتا دھرتاآصف علی زرداری صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ایوان صدرتک محدود ہوگئے تھے۔ انہوںنے اس عرصے میں پی پی پی کا پنجاب کے عوام سے بھی ناتا توڑ دیا۔ اور یوں پی پی کی سیاسی شناخت کو مسخ کرنے میں اس کی اپنی حکومت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ کیوں کہ اس نے اپنے دور حکومت میں کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس پر فخر کیا جاسکے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کی وجہ سے لوگ پی پی حکومت سے تنگ آگئے اور ان کے جانے کی تمنائیں کرنے لگے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پی پی اپنے ’اعمال‘ کی وجہ سے انتخابات سے قبل ہی ہار گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی عوامی سیاست و نظریات کے ساتھ ساتھ پنجاب کو بھی کھوچکی ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کوسنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ پیپلزپارٹی کی راہ میں حائل ہوتی تو وہ اسے سندھ سے بھی ہرادیتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ 2013ءکے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے انتخابی مہم بھی نہیں چلائی۔ جہاں تک سندھ کی بات ہے تو یہ اس جماعت کا مضبوط گڑھ ہے۔ اس لیے لوگوں نے ماضی کی طرح اس بار بھی پی پی کو ووٹ دیا۔ لیکن اگر بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا جائزہ لیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نوڈیرومیں یہ تقریر جیالوں کے لیے کی، کیوں کہ وہ بار بار جیالوں کو ساتھ دینے کی تلقین کرتے رہے۔لیکن اپنی خراب کارکردگی اور جیالوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معذرت کی نہ اپنی اور اپنی حکومت کی غلطیوں کا اعتراف کیا ۔
آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو زرداری کو بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی کے موقع پر ان کے قاتلوں کے متعلق بھی لب کشائی کرنا چاہیے تھی۔ لوگوں کے ذہنوں میںسوالات ہیں کہ اس ہائی پروفائل کیس کو منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایا گیا؟ بلاول عمران خان کو نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف تحریک چلانے پر تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں بھی تو جھانک کر دیکھ لیتے۔ اب تک بے نظیرقتل کیس میں صرف 4 گواہوں کی شہادت قلمبند کی جاسکی ہے۔ 4 مختلف اداروں نے اس کی تحقیقات کیں، ایک مقدمے میں 9 چالان پیش ہوئے، 5 جج تبدیل ہوئے، مقدمے کے 8 میں سے 5مبینہ ملزم اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف، ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد ضمانت پر ہیں۔
اس مقدمے کی اگر یہی رفتار رہی تو اسے مکمل ہونے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ بے نظیر کے قتل کے بعدپیپلز پارٹی کی اپنی حکومت آئی لیکن اس نے 5 سال میں کچھ نہیں کیا.... کسی اور کی حکومت ہوتی تو کوئی عذر تراشا جاسکتا تھا، لیکن پی پی پی نے بھی روایتی بے حسی کامظاہرہ کیا۔ جو پارٹی اپنے دورِ اقتدار میں اپنی قائد کے قاتلوں کوسزا دلانے میں ناکام رہے اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عوام کو کوئی ریلیف دے گی، فضول معلوم ہوتا ہے۔ ہر سال 27 دسمبرکو اخبارات میں خصوصی مضامین اور اشتہارات کی بھر مار ہوتی ہے، جن میں پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنی ’شہید‘قائد کو خراج ِعقیدت پیش کرتی ہے۔ گڑھی خدا بخش میں برسی کے موقع پر مرکزی تقریب ہوتی ہے جس میںپی پی کے مرکزی رہنما پرجوش انداز میں تقریریں کرتے ہیںپھر سب کچھ بھلا کر نئے سال کا آغاز کیاجاتا ہے اور سابقہ معمولات بحال ہوجاتے ہیں۔ پی پی کی قیادت کی ذمہ داری شاید یہیں تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد کون پوچھتا ہے کہ بے نظیر کے قاتلوں کا کیا ہوا؟
2

مڈنائٹ ان پیرس



میں پیرس شہر میں اترا تو وہاں دوپہر کے وقت شام تھی‘ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی‘ پورے شہر کو دھند نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا اور ٹھنڈی خنک ہوا پورے بدن کو گدگدا رہی تھی‘ میں نے جوں ہی ایئرپورٹ سے باہر قدم رکھا‘ بارش اور دھند میں گندھا ہوا ایک یخ جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا‘ آپ جب حجام سے شیو بنواتے ہیں اور وہ جب شیو کے آخر میں آپ کے چہرے پر پانی کی پھوار مارتا ہے اور یہ اگر سردیوں کے دن ہوں اور پانی کی پھوار ٹھنڈی ہو تو آپ تصور کیجیے اس وقت آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟ آپ یقینا آنکھیں بند کر لیں گے اور پانی کی ٹھنڈک کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں اترتا ہوا محسوس کریں گے‘ آپ کے منہ سے اس وقت کچھ لایعنی سے لفظ بھی نکلیں گے‘ یہ لفظ اخو‘ ہائے‘ مار دیا اور ظالم قسم کے ہوں گے‘ چارلس ڈیگال ایئرپورٹ کے سامنے میری اس وقت یہی صورت حال تھی‘ میرے چہرے پر یخ ہوا اور ٹھنڈی پھوار پڑ رہی تھی اور منہ سے لایعنی لفظ نکل رہے تھے‘ مجھے سردی‘ بارش‘ ہوا‘ دھند اور پیرس کے ساتھ دوبارہ متعارف ہونے میں چند لمحے لگ گئے۔
دنیا کے ہر شہر میں ایک خاص قسم کی پراسراریت ہوتی ہے‘ آپ جوں ہی اس شہر کے ’’ریڈی ایس‘‘ میں داخل ہوتے ہیں‘ یہ پراسراریت آپ کے وجود کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور آپ چند لمحے بعد اس طرح ’’بی ہیو‘‘ کرنے لگتے ہیں جس طرح اس شہر کے دوسرے لوگ کرتے ہیں‘ آپ کبھی اپنے شہر سے باہر نکل کر تجربہ کر لیں‘ آپ کو میری بات پر یقین آ جائے گا‘ آپ لاہور چلے جائیں‘ آپ بلاوجہ قہقہے لگانے لگیں گے‘ آپ کی جسمانی‘ ذہنی اور روحانی بھوک میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور آپ کو وہاں ایک کھلے پن کا احساس بھی ہو گا‘ آپ کراچی چلے جائیں‘ اس کی حدود میں داخل ہوتے ہی آپ پر خوف‘ احتیاط اور پریشانی غلبہ پا لے گی‘ آپ ہر شخص سے ملتے ہوئے محتاط ہو جائیں گے‘ آپ ملتان چلے جائیں‘ آپ کے دماغ میں اچانک عابدہ پروین کی آواز گونجنے لگے گی اور آپ ٹیکسلا چلے جائیں‘ آپ کو اپنے اردگرد گزرے وقت کی راکھ کے ڈھیر محسوس ہوں گے۔
جولیان میرا پسندیدہ ترین مقام ہے‘ یہ ٹیکسلا کے آثار میں لپٹا ہوا ماضی کا ایک خاموش شہر ہے‘ آپ جوں ہی اس شہر میں داخل ہوتے ہیں‘ آپ کی ذات پر گہرا سکوت طاری ہو جاتا ہے‘ آپ یوں محسوس کرتے ہیں‘ آپ جلتے‘ بجھتے اور سلگتے زمانوں سے نکل کر ماضی کی ٹھنڈی غار میں آ گئے ہیں‘ اس گزرے ہوئے شہر کی ہوا میں بہت سکون ہے‘ شاید اس شہر میں اپنے وقت کا کوئی ولی دفن ہو‘ اولیاء کرام اور انبیاء کرام کے مدفون کے گرد ہمیشہ سکون ہوتا ہے‘ آپ جوں ہی ان کے ’’ریڈی ایس‘‘    میں داخل ہوتے ہیں‘ آپ کو وقت ٹھہرا ہوا‘ سکون سے سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے‘ آپ کبھی داتا صاحب کے مزار پر جا کر دیکھیں یا شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر جائیں یا پھر شاہ رکن عالم کے مزار پر جا کر دیکھیں آپ کو چند سیکنڈ میں ماحول کی تبدیلی محسوس ہو جائے گی‘ اولیاء کرام کا ’’اورا‘‘ ٹھنڈا ہوتا ہے اور آپ کو یہ ٹھنڈا پن ان کے مزار پر باقاعدہ محسوس ہوتا ہے‘ آپ مسلسل اکیس دن داتا صاحب کے دربار پر حاضری دیں‘ آپ کے راستے کے تمام دروازے کھل جائیں گے‘ میں نے بے شمار لوگوں کو اس نسخے کا ’’ثبوت‘‘ پایا۔
آپ سینیٹر اسحاق ڈار کی مثال لے سکتے ہیں‘ یہ لاہور کے ایک عام سے چارٹر اکاؤنٹنٹ تھے‘ یہ داتا صاحب کے مرید ہوئے‘ یہ داتا کے دربار میں حاضری دینے لگے اور یہ پچھلے بیس سال سے پاکستان کے اہم ترین شخص ہیں‘ یہ آج بھی جب لاہور جاتے ہیں‘ تو یہ داتا صاحب حاضری ضرور دیتے ہیں‘ روحانیت میں مدینہ منورہ سے بہتر کوئی مقام‘ کوئی شہر نہیں‘ آپ اگر ’’افورڈ‘‘ کر سکتے ہیں تو سال میں کم از کم تین دن مدینہ منورہ میں ضرور گزاریں‘ آپ اگر چار نمازیں روضہ رسولؐ کے ساتھ کھڑے ہو کر پڑھ لیں تو آپ کی روح کو پورے سال کی غذا مل جائے گی‘ آپ پورا سال حادثات‘ مسائل اور پریشانیوں سے نہیں گھبرائیں گے کیونکہ مدینہ منورہ اور روضہ رسولؐ کی فضا میں حوصلہ‘ برداشت اور ہمت ہے اور یہ ہمت‘ برداشت اور حوصلہ آپ کے جسم میں طاقت پیدا کر دیتا ہے‘ مجھے میرے بابا جی نے بتایا تھا‘ دمشق کی مسجد امیہ اور بیت المقدس دونوں میں ایک خاص مقام ہے جسے مقام اولیاء کہتے ہیں‘ آپ اگر طلب کے سچے ہیں اور آپ رات کے تین اور چار بجے کے درمیان ان مقامات پرچار نفل نماز ادا کر لیں تو آپ کے راستے کے تمام پتھر ہٹ جاتے ہیں‘ بیت المقدس کا یہ مقام وہ ہے جہاں نبی اکرمؐ نے معراج کی رات انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی‘ میں نے بابا جی سے پوچھا ’’ہم اس مقام کی نشاندہی کیسے کریں گے‘‘ بابا جی نے جواب دیا ’’آپ کو جو لے کر جائے گا‘ وہ جگہ کی نشاندہی بھی کر دے گا‘‘۔
میں واپس پیرس کی طرف آتا ہوں‘ پیرس کی فضاؤں میں ایک خاص قسم کا تخلیقی رومان ہے‘ آپ جوں ہی اس شہر میں قدم رکھتے ہیں‘ آپ کا دل محبت کے جذبے سے مالا مال ہو جاتا ہے‘ آپ کی رگوں میں تخلیق موجیں مارنے لگتی ہے‘ آپ کے ہاتھ‘ آپ کی زبان اور آپ کے گلے کے تمام بند ٹوٹ جاتے ہیں‘ آپ کے ذہن میں اچھوتے خیالات کا عظیم لشکر آتا ہے اور تخلیق کی گرد اڑا جاتا ہے‘ آپ دنیا کے تمام بڑے تخلیق کاروں کے پروفائل نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو یہ لوگ پیرس آتے‘ پیرس میں رکتے اور ٹھہرتے ضرور نظر آئیں گے‘ آپ دنیا کے معروف ادیبوں کو دیکھ لیجیے‘ دنیا کے عظیم مصوروں‘ عظیم موسیقاروں‘ عظیم اداکاروں‘ عظیم شاعروں اور عظیم ملبوس سازوں کو دیکھ لیجیے‘ آپ کو ان کی زندگی میں پیرس ضرور ملے گا‘ یہ شہر تخلیق کاروں کو مالامال کر دیتا ہے‘ یہ تخلیق کا عظیم خزانہ ہے‘ بس اس شہر میں صرف ایک خرابی‘ ایک نقص ہے‘ یہ شہر انسان کے اکیلے پن کو بڑھا دیتا ہے‘ آپ اگر تنہا نہیں ہیں تو یہ شہر آپ کو تنہا کر دے گا اور اگر آپ تنہا ہیں تو پھر یہ شہر آپ کی تنہائی میں ہزار گنا اضافہ کر دے گا‘ آپ دشت تنہائی بن جائیں گے اور گزرے وقت کی یاد کے سائے آپ کے گرد لرزنے لگیں گے‘ شہر آپ کی یادوں کے کھرنڈ میں خارش بھی پیدا کر دے گا‘ آپ بھوکے کتے کی طرح ہاتھوں کے دونوں پنجوں سے زمین کریدنے لگیں گے اور اس وقت تک کریدتے رہیں گے جب تک گزرے دنوں کی بدبودار لاش حافظے کے تابوت سے باہر نہیں آ جاتی اور آپ اس کے بعد اس لاش کے سرہانے بیٹھ کر اپنے ماضی کا سیاپا نہیں کر لیتے‘ یہ شہر گزری یادوں کی مدفون خوشبوؤں کا خزانہ بھی ہے‘ آپ جوں ہی شہر میں اترتے ہیں‘ گزری ہوئی یادوں کی خوشبو ایک ایک کر کے آپ کی ناک کے گرد منڈلانے لگتی ہے اور یہ سب کچھ اگر دھند‘ بارش‘ برف اور سردیوں کی شام میں ہو تو آپ گہری اداسی میں چلے جاتے ہیں۔
ایک گہری تخلیقی اداسی‘ وہ اداسی جس نے ارنسٹ ہیمنگ وے کو ’’اولڈ مین اینڈ سی‘‘ لکھنے پر مجبور کر دیا تھا اور جس نے آخر میں اس سے خودکشی کرا دی تھی اور خودکشی بھی ایسی خوفناک توبہ توبہ۔ ہیمنگ وے نے اپنے اپارٹمنٹ کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی‘ جوتے اتارے‘ اپنی عزیز ترین شارٹ گن نکالی‘ اس میں ہاتھی مارنے والا کارتوس ڈالا‘ بندوق کی نالی اس دماغ کے ساتھ لگائی جس نے دنیا کو سیکڑوں جیتے جاگتے ابدی کردار دیے تھے‘ بندوق کا کندھا پاؤں کی طرف کھسکایا‘ پاؤں کا انگوٹھا ٹریگر پر رکھا‘ پاؤں تھوڑا سا آگے کھسکایا‘ عمارت میں خوفناک دھماکا ہوا اور دنیا کا عظیم رائٹر ارنسٹ ہیمنگ وے زندگی کی سرحد پار کر گیا‘ پولیس آئی تو اس نے فلیٹ میں خوفناک منظر دیکھا‘ فلیٹ کی دیواروں اور چھت پر ہیمنگ وے کے دماغ کی روئی لٹک رہی تھی‘ روئی کے ان گالوں کو اکٹھا کرنے میں مہینے لگ گئے‘ ہیمنگ وے کی جوانی پیرس میں گزری تھی‘ یہ روز ’’کیفے ڈی فلورا‘‘ میں بیٹھتا تھا‘ میں کئی بار ’’کیفے ڈی فلورا‘‘ گیا اور ہیمنگ وے کی کرسی پر بیٹھ کر پیرس کو محسوس کرنے کی کوشش کی‘ میں نے ژاں پال سارتر کی کرسی پر بیٹھ کر بھی پیرس کو محسوس کیا اور میں دریائے سین کے کناروں پر چلتے چلتے نوٹر ڈیم کے اس عظیم چرچ تک بھی گیا جہاں کبھی پیرس کا کبڑا عاشق رہتا تھا اور اس نے ایک عام سی لڑکی سے عشق کر کے اس چرچ اور اس شہر کو دوام بخش دیا‘ ہیمنگ وے امریکا واپس چلا گیا لیکن پیرس اس کے دماغ سے خارج نہ ہو سکا یہاں تک کہ وہ زندگی کی سرحد پار کر گیا‘ پیرس ایک ایسا ہی شہر ہے‘ آپ اگر ایک بار اس کے ہو جائیں تو یہ پھر آپ کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑتا‘ آپ زندگی بھر اس کے حصار کے قیدی بنے رہتے ہیں۔
شانزے لیزے کی رات بھیگی ہوئی تھی‘ آسمان سے محبت کے قطرے زمین پر اتر رہے تھے‘ روشنیاں ان کے وجود میں اترتی تھیں اور پانی کے چھوٹے چھوٹے قطروں کو سات سات رنگوں میں تبدیل کر دیتی تھیں‘ یہ سات رنگ پیاسی زمین کی آغوش میں اتر جاتے تھے تو بھی روشنی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی‘ محبت کے یہ قطرے گیلی زمین پر چمکتے رہتے تھے‘ میں اور مبشر ہیولے کی طرح فٹ پاتھ پر چل رہے تھے‘ سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی‘ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح خود کو گرم کوٹوں میں لپیٹ کر دائیں بائیں سے گزر رہے تھے‘ کرسمس گزر چکی تھی مگر اس کے آثار ابھی تک باقی تھے‘ کرسمس کے دنوں میں شانزے لیزے کے ایک کونے میں عارضی بازار لگ جاتا ہے‘ یہ بازار لکڑی کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر مشتمل ہوتا ہے‘ یہ ہٹ نما دکانیں کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر جیولری اور کھلونوں تک مختلف مصنوعات سے بھری ہوتی ہیں‘ فٹ پاتھ پر لکڑی اور کپڑے کی بڑی بڑی چھتریاں رکھ دی جاتی ہیں‘ لوگ بچوں کو لے کر اس بازار میں آ جاتے ہیں‘ کھانے پینے کی اشیاء خریدتے ہیں اور چھتریوں کے نیچے کھڑے ہو کر کھانے لگتے ہیں‘ یہ بازار بچوں کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے چنانچہ آپ کو اس میں بچوں اور گھریلو خواتین کی تعداد زیادہ ملتی ہے‘ یہ بازار بھی موجود تھا‘ بارش ہو رہی تھی مگر اس کے باوجود وہاں سیکڑوں بچے‘ خواتین اور مرد تھے‘ ہم اس بازار سے گزرتے ہوئے آرچ کی طرف چل پڑے‘ ہمارے ساتھ ساتھ پیرس کی اداسی بھی چل رہی تھی‘ میں اس وقت خود کو ’’مڈنائیٹ ان پیرس‘‘ کا کوئی مایوس کردار محسوس کر رہا تھا‘ اداسی‘ تنہائی اور بے مقصدیت کا شکار ایک بھیگا ہوا کردار۔

Qoami Jhoot Boolnay Walay – Orya Maqbool Jan

Jinsi Taleem ki aar man Sazish

وہ کونسی بات ہے جو بلاول 25 سال کی عمر میں جان گیا اور نانا 43 سال میں نہ جان سکا ؟

افتخار چوہدری 11 جنوری 2016 کونئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھیں - گے

timthumb.phpچنیوٹ ( قدرت نیوز )معروف ماہر علم رمل،نجوم،پامسٹ،علم الاعداد خواجہ ناظر علی چنیوٹی نے دعوی کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری گیارہ جنوری 2016 کو ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھیں گئے جس میں ریٹائیرڈ ججزا،وکلاء اور دیگر شعبہ زندگی کی اہم شخصیات سمیت اہم سیاستدان اپنی پرانی پارٹیوں کو چھوڑ کر ان کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے اور 2018 کے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے گی اور عوام میں یہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف سے حد درجہ زیادہ مقبولیت حاصل کر ے گی اور الیکشن میں تمام بڑی پارٹیوں کو اس نومولود پارٹی سے بہت زیادہ سیاسی نقصان ہو گا۔اور اپوزیشن جماعتیں اس پارٹی کے خلاف ہو جائیں گے۔وہ اتوار کو میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ اپنی سالانہ 2014کی پیشن گوئیاں کرتے ہو ئے کیا۔خواجہ ناظر علی چنیوٹی نے کہا کہ عمران خان،مولانافضل الرحمان،طاہر القادری،پرویز الٰہی ،شیخ رشید،شاہ محمود قریشی،امین فہیم،خورشید شاہ،اسفند یار ولی اپنی سیاسی زندگی میں کبھی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے انکی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی۔انہوں نے پیشن گوئی کی سال 2014 میں آزاد عدلیہ مسلسل ایسے فیصلے کرے گی جس میں زیادہ تر سیاست دانوں کے متعلق ہو ں گے اور انکی سیاست ختم ہو جائے گی اور عوام عدلیہ کے ایسے فیصلوں کو بہت سراہے گی اور عوام میں عدلیہ کی قدروقیمت بڑھ جائیگی۔امن وامان کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مستقبل قریب میں حکومت دہشت گردی،چوری،ڈکیتی اور دیگر سنگین وارداتوں کی موثر طور پر روک تھام کے لے نئی قانون سازی کر ے گی اور تمام جماعتیں حکومت کا بھر پور ساتھ دیں گی جس کے بعد امن وامان کی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔اور نواز شریف حکومت بھی بہت زیادہ مستحکم ہو جائے گی۔توانائی کے بحران کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سال ملک میں جاری توانائی کے بحران پر 90 فیصد تک قابو پا لیا جائے گا۔جس سے نہ صرف عوام کو ریلیف ملے گا بلکہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوں گئے اور ملک سے بیروزگاری کا کچھ حد تک خاتمہ ہو جائے گا۔انہوں نے پیشن گوئی کی پاکستان کے موسمی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے اس سال بارشیں زیادہ ہونے کہ وجہ سے سیلاب کا زیادہ خطرہ لاحق ہے جس میں جانی و مالی نقصان کے علاوہ جانوروں کی اموات بہت زیادہ ہو ں گی اور فصلات کا بھی بہت زیادہ نقصان ہو گا۔مزید براں طوفان و بادوباراں اور زلزلے بھی آئیں گئے جس میں بہت نقصان کا اندیشہ ہے۔حکومت اور عوام ملک و قوم کو قدرتی آفات سے بچنے کے لیے اللہ تعالی سے گڑگڑ کر دعائیں کرنی چاہئیں۔انہوں نے بتایا حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی اور یہ تعلقات ملک و قوم کے لیے مفید ہوں گے ،ملک میں مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے کی وجہ سے مقبولیت حاصل کر ئے گی ناکام سیاستدان ملک میں مارشل لاء کی افوائیں پھیلا کر اپنی سیاست کا چمکا رہے ہیں ۔خواجہ ناظر علی چنیوٹی جن کی قبل ازیں متعدد پیشن گوئیاں درست ثابت ہو چکی ہیں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سرحدیں بھی محفوظ ہو رہی ہیں بھارت،افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات میں جو سرد مہری ہے خطہ میں خاص تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جس سے نہ صرف ان ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہو ں گے بلکہ تجارت میں اضاٖفہ ہونے سے ان تمام ممالک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آجائے گی عوام ان ممالک سے تعلقات کی بہتری پر حکومت کا بھر پور ساتھ دئے گی۔اپوزیشن کے احتجاج ناکام ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ چین جوکہ پاکستان کا گہرا دوست ہے ایک نئی ٹیکنالوجی پاکستان کو دے گا جس سے ملکی معیشت،مواصلات اور دفاع میں بہتری آئے گی۔امریکہ سمیت کئی ممالک چین کی مخالفت کریں گے مگر وہ پاکستان کو یہ ٹیکنالوجی دینے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرئے گا۔امریکہ کو چین اس سال اقتصادی طورپرپچھاڑ دے گااور امریکہ دنیامیں معاشی طور پر چین سے خوف زدہ ہو جائے گا اور اسکی معاشی حکمرانی جلد ختم ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سال 2014 میں پوری دنیا میں دو سورج اور دو چاند گرہن ہو ں گے اور ان گرہن کے اثرات کی وجہ سے پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافہ،بچوں کی

پاکستان نہیں امریکہ تنہا ہو رہا ہے، عمران خان کا نواز شریف کو جواب۔

لدیاتی انتخابات کا مستقبل، الیکشن کمشن کا 3 آپشن پر غورکے لئے اجلاس طلب

Saturday, 28 December 2013

Nawaz Sharif’s Assets Worth Rs 1.80 Billion

Nawaz Sharif’s Assets Worth Rs 1.80 Billion
Islamabad: Election Commission (ECP) has released the list of assets possessed by the National and Provincial members of the assembly.According to the details, Prime Minister Nawaz Sharif possesses assets over worth Rs 1.80 billion while Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) Chairman Imran Khan has assets of 50 million and 93 lacs.


According to the list published on the Election Commission (ECP) website, of the assets possessed by the Provincial and National Assembly members, Nawaz Sharif has assets over Rs 1824044233. The assets declared by the Prime Minister entail all the factories, agricultural lands, industries and bank accounts.
While, the PTI Chief Imran Khan, possesses assets worth Rs 59350582. The declared assets include his privately owned cars, agricultural lands and bank accounts.


Amin Fahim, one of the prominent leaders of Pakistan Peoples Party (PPP) his possessions have not been declared. Yet he is said to own a farm house in Rawalpindi. A flat is owned by the leader in Dubai worth 22 lacs Dirham. While under his name is property for his children that costs up to 6 crore and 30 lacs Rs, including 5 posh bungalows and 306 hectares land.

Assets of Farooq Sattar, former MQM’s Rabta committee member have been declared as 36 lacs Rs, 41 thousand and 168 Rs. While, Maulana Fazlur-Rehman of Jamat –e-Islami (F) assets are Rs. 73 lacs, 18 thousand and 380 Rs. Out of the total amount, 16 lacs, 8 thousand and 380 rupees are deposited in the bank accounts.

پاکستان کرکٹ بورڈ کا آ ئندہ سال کیلئے متعدد نئے کھلاڑیو ں کو سنٹرل کنٹریکٹ دینے کا فیصلہ

لاہور(آقدرت نیوز)پاکستان کرکٹ بورڈ نے آ ئندہ سال کے لئے متعدد نئے کھلاڑیو ں کو سنٹرل کنٹریکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا۔پی سی بی کے ذرائع کے مطابق صہیب مقصود ، بلاول بھٹی، شرجیل خان، شان مسعود اور خرم منظور کو عمدہ کارکردگی کے صلے میں معاہدے مل سکتے ہیں جبکہ کامران اکمل ، فیصل اقبال، عمران فرحت ،توفیق عمر ، اعزاز چیمہ کو - See فہرست سے باہر کیا جا سکتا ہے۔207053-pcbcom_pk_x-1386968073-207-640x480

ون ڈے میں سعید اجمل کی بادشاہت برقرار، حفیظ نے بھی کیرئیر کی بہترین پوزیشن حاصل کرلی

مصباح الحق بیٹنگ میں 9ویں نمبر پر جبکہ جنید خان بالنگ میں 11 درجے ترقی کرکے 11ویں نمبرپر آگئے ہیں۔ فوٹو: فائل
دبئی: انتڑنیشنل کرکٹ کونسل کی ایک روزہ میچوں کی نئی رینکنگ میں جادوگر اسپنر سعید اجمل کی بادشاہت برقرار ہے جبکہ بیٹنگ میں محمد حفیظ نے کیرئر کی بہترین رینکنگ حاصل کر لی ہے۔
آئی سی سی کی جانب سے نئی ون ڈے رینکنگ کے مطابق آل راؤنڈرز میں محمد حفیظ نے بنگلہ دیش کے شکیب الحسن سے پہلی پوزیشن چھین لی ہے جبکہ بیٹنگ میں بھی محمد حفیظ پہلی بار 20 بہرین کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں اور سری لنکا کے کے خلاف شاندار کارکردیگ کا مظاہرہ کرنے کے بعد ان کی پوزیشن 16ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے کپتان مصباح الحق 9ویں نمبر پر ہیں۔ سعید اجمل باؤلنگ میں پہلی پوزیشن پر قابض ہیں جبکہ جنید خان 11 درجے ترقی کرکے 11ویں نمبرپر آگئے ہیں۔

Jang Ka Mehwrut (War Time) By Orya Maqbool Jan

صوبے کے عوام نے ہم پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے ان شاء اللہ اس کو کبھی ٹیس نہیں پہنچائیں گے۔ سرکاری خزانے پر عوام کا حق ہے اس لئے ہم اس کی ایک ایک پائی کا حساب دیں گے بھی اور لیں گے بھی ان شاء اللہ

Musalmaniyat Hamari Pehli Aur Bunyadi Pehchan By Ansar Abbasi

Musharraf Appeal UN, US to Stop Treason Case

2014 – Orya Maqbool Jan


Friday, 27 December 2013

لاڑکانہ: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف کو یقین دلاتا ہوں اگر جمہوریت کو خطرہ ہوا تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔


لاڑکانہ: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف کو یقین دلاتا ہوں اگر جمہوریت کو خطرہ ہوا تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
گڑھی خدا بخش میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتےہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی ماں کے اکلوتے بیٹے کی حیثیت سے قبر پر ٹوٹے ہوئے دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے درمیان کھڑے ہوکر بھی نفرتوں کا کاروبار نہیں کیا بلکہ امید کو گلے لگایا اور آپ کو ایک ہی پیغام دیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور پاکستان کی عوام نے جمہوریت کا تحفہ دے کر میری ماں کے ناحق خون کا بدلہ لے لیا، آج ہم جمہوریت کا سائے تلے زندگی گزار رہےہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ آئیں آج آصف علی زرداری کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اپنی زندگی کے ساڑھے گیارہ سال جمہوریت کی خاطر جیل میں گزار دیئے۔ بے نظیر پر حملے کے وقت پاکستان ٹوٹنے کے موڑ پر کھڑا تھا لیکن آصف زرداری نے آگ اور خون کے درمیان کھڑے ہوکر ایک ہی آواز بلند کرکے پاکستان کی بقا کا نعرہ لگایا۔
بلاول نے کا کہنا تھا کہ پچھلے الیکشن میں ہم نے 100 سیٹوں کی خاطر بے نظیر بھٹو اور کارکنوں کی قربانی دی تھی لیکن اس بار اپنے کارکنوں کی زندگی بچانے کے لئے 100 سیٹیں قربان کردیں، یہ وہ الیکشن تھے جن میں صرف ان جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی آزادی تھی جن کو طالبان کی شفقت حاصل تھی اور صرف انہیں ہی گھروں کو نلنے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے اسفندیارولی خان، الطاف حسین اور ہمیں مجبور کردیا گیا تھاکہ ویڈیولنک کے مہم چلائیں۔ یہ الیکشن شفاف نہیں تھے یہ جانتے ہوئے بھی ہم نے نتائج کو قبول کیا کیوں کہ ہم جمہوریت سے پیار کرتےہیں اور اس بات پر یقین رکھتےہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے۔
پیپلزپارٹی کے چیرمین کا کہنا تھاکہ اب پاکستان پر ان لوگوں کی حکومت ہے جنہیں اپنے وعدوں سے پھر جانے کی عادت ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ صبح کا وعدہ شام اور شام کا وعدہ صبح ٹوٹتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ اگر 6 مہینے میں بجلی نہ دی تو میرا نام بدل دینا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کا نیا نام ہی سوچتے رہتےہیں لیکن اتنی دیر میں وہ خود بدل جاتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ کے چندعناصرنہیں چاہتے تھےکہ پیپلزپارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرے، عام انتخابات میں بد ترین دھاندلی ہوئی اورپیپلز پارٹی کو پنجاب کی سرحد پر روک لیا گیا جب کہ سونامی کوبھی پنجاب میں جیتنے نہ دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے ہر دور کے آمر سے ٹکر لی، ہمیں پتا ہے کہ جمہوریت کو کیسے خطرات ہیں اگر پاکستان کی حفاظت کرنا زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے تو میں نے یہ پیالا اٹھا لیا ہے۔
 بعد ازاں سابق صدر آصف علی زرداری نے مختصر خطاب میں کہا کہ  پاکستان کے لئے ہر کام وزیراعظم نوازشریف تنہا نہیں کر سکتے،جمہوریت کے استحکام کے لئے حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کو نجکاری سمیت دیگر کمزوریاں یاد دلاتے رہیں گے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ ملکی 65 سالہ تاریخ میں ہمیشہ سیاسی قوتوں کو لڑایا گیا جبکہ کوئی بِلا رات و رات آکر دودھ پی جاتا رہا ہے، یہ کوئی مذاق نہیں کہ وزیراعظم کو ہتھکڑی لگا دی جائے، طاقت کا مظاہرہ کرنے والا بِلا اب جکڑا جاچکا ہے، بِلے کو انجام تک پہنچانے کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سابق صدر مملکت نے مزید کہا کہ قوموں پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں، سری لنکا میں 40 سال تک قوموں کو آپس میں لڑایا گیا اسی طرح پاکستان میں بھی قوموں کو لڑانے کی سازش ہو رہی ہے،طالبانائزیشن کے خاتمے کے لئے غربت کو ختم کرنا ہوگا۔

بلوچستان کو پولیو فری بنا دیا ہے بلدیاتی انتخابات کروا کر تمام صوبوں -سے بازی لے گئے ہیں،ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ

dr-abdul-malik-inp670اسلام آباد (قدرت نیوز )وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی مسئلہ ہے جسکو سیاسی طریقے سے حل کریں گے ‘ بلوچستان کے عوام نے ایوب سے مشرف آمریت تک مزاحمت کی ‘قوم پرست جمہوری جماعتوں نے مسلح طریقوں سے جد وجہد کر نیوالوں کو روکنے کی کوشش کیں ‘ ہماری حکومت نے تعلیم کی بہتری کیلئے تعلیم کا بجٹ 6فیصد سے بڑھا کا26فیصد کر دیا ہے‘ 6نئی یونیورسٹیز اور 3میڈیکل کالج قائم کئے جبکہ اس وقت صرف ایک میڈیکل کالج ہے ‘ بلو چستان میں بجلی کا بحران ایک بہت بڑا مسئلہ ہے صوبے کی طلب 1500سو میگا واٹ ہے جبکہ ٹرامیشن لائن صرف 600سو میگا واٹ کی ہیں۔ گزشتہ روز اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ ہم ایک شورش زدہ خطہ میں رہ رہے ہیں جس کے اثرات بلوچستان میں عسکریت پسندی کی صورت مین سامنے آ رہے میں تا ہم ہماری کوشش ہے کہ مسئلہ جددوجہد کرنے والے دوستوں کو جمہوری جدوجہد پر قائل کریں کیونکہ بلوچستان کے حقوق جمہوری جدوجہد سے ہی مل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں بجلی کا بحران ایک بہت بڑا مسئلہ ہے صوبے کی طلب 1500سو میگا واٹ ہے جبکہ ٹرامیشن لائن صرف 600سو میگا واٹ کی ہیں وزیراعظم سے بات کی ہے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ایک سال کے اندر 600مزید میگاواٹ کی لائنیں بچھائیں گے ۔ صوبے میں پانی کی قلت دور کرنے ڈیمو پر کام کچھی کینال کے منصوبے پر وفاقی حکومت نے 5ارب روپے جاری کر دیئے ہیں۔ انہونے کہاکہ ہماری حکومت نے تعلیم کی بہتری کیلئے تعلیم کا بجٹ 6فیصد سے بڑھا کا26فیصد کر دیا ہے ۔ 6نئی یونیورسٹیز اور 3میڈیکل کالج قائم کئے جبکہ اس عوقت صرف ایک میڈیکل کالج ہے ۔انہوں نے کہاکہ 6ماہ میں بلوچستان کو پولیو فری بنا دیا ہے بلدیاتی انتخابات کروا کر تمام صوبوں سے بازی لے گئے ہیں جبکہ صوبے مین چار بڑی شاہرائیں تعمیر کی جا رہی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ صوبے میں پولیس کے نظام کی بہتری کیلئے بھی انتظامات کئے اور پولیس میں اصلاحات کا عمل جاری ہے ۔کوئٹہ میں مجوری صورتحال بہتر امن و مان ۔ ایک زمانہ تھا جب بلوچستان والے کرپشن مشہور تھے لیکن ہمارے دور میں کرپشن کا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آّیا جو بڑی کامیابی ہے ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے عوام نے ایوب سے مشرف آمریت تک مزاحمت کی اورقوم پرست جمہوری جدوجہد کو مسلح طریقوں سے روکنے کی کوشش کی گئی اور ایسی حکومتوں میں زیادہ نمائندگی پنجاب کی تھی جب اسلام آباد صوبوں کو حقوق نہیں دے گا تو وہاں پر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھے گی ۔انہوںے کہاکہ بلوچستان پاکستان کے وفاق کی روح ہے ۔ جہاں بلوچ ، پشتون ، سندھی ،پنجابی اور سرائیکی سب آباد ہیں اور بلوچستان کو جمہوری انداز میں چلا کر مستحکم کیاجا سکتا ہے مسلم لیگ نون کی طرف سے اپنی اکثریت ہونے کے باوجود مجھے وزیراعلیٰ بنانا ایک مثبت قدم ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہمارے بڑوں کی پالیسی واضح تھی اور ہم بھی اس پر کار بند ہیں یہ افغانستان ، ایران اور بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے دوستانہ تعلقات ہونے چاہیں افغانسان میں استحکام ہوتو پاکستان میں بھی امن ہو گا‘ ہم جیو اور جینے دو کی پالیسی پر چلتے ہوئے اپنے ملک کو پر امن رکھ سکتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے سڑکوں پر لاشیں ملنے کا سلسلہ کم ہوا ہے تاہم لاپتہ افراد کے معاملے پر زیادہ پش رفت نہیں سیاسی مسئلہ سیاسی طریقے سے حل کریں گے

پختون قوم ڈالرز لینے والوں نے شرمند ہ کیا ، ہم پختون قوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، عمران خان

اور ( قدرت نیوز ) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے بند ہونے تک نیٹو سپلائی روکی جائے گی ، ڈرون حملوں کے خلاف تحریک انصاف اپنے منشور پر قائمہے ، پختون قوم کو انہوں نے شرمندہ کیا ہے جنہوں نے ڈالرز لئے ، ہم تو آج بھی پختون قوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، مہنگائی کی بڑی وجہ لوڈ شیڈنگ ہے ۔ وہ جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کرنسی نوٹ چھاپے جارہے ہیں اس لئے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے ۔ عمران خان نے کہا کہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ لوڈ شیڈنگ بھی ہے ۔ ہم نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ پیسکو ہمارے حوالے کردیں ہم بجلی چوری ختم کردیں گے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے عوام کو جو کچھ بھی کہا اس پر قائم رہیں گے ۔ پختون قوم کو ڈالرز لینے والوں نے -  شرمندہ کیا ہے ۔ تحریک انصاف اپنے منشور کے مطابق اپنے عوام کے ساتھ کھڑی ہے - Px26-092