مہنگائی اور کرپشن کو روکنے کا طریقہ کالم نگار | فاروق عالم انصاری
مہنگائی اور کرپشن کو روکنے کا طریقہ
کالم نگار | فاروق عالم انصاری
ماتحت کا نہیں صرف افسراعلیٰ کا چلتا ہے سو صوبے من مرضی نہیں کرسکتے تیل اورگندم کی قیمت مرکز مقرر کرتا ہے۔ باقی تمام اشیاءکی قیمتیں ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہیں میاں نوازشریف صوبہ پنجاب اور مرکز میں حکمران ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں بھی انہیں ہی حکمران سمجھیں اس طرح تحریک انصاف کے چیئرمیں عمران خان کا پنجاب کے شہر لاہور میں مہنگائی کے خلاف احتجاج غیر مناسب نہیں۔ ناصر باغ لاہور میں احتجاجی ریلی سے ایک روز پہلے عمران خان نے اعلان کیا کہ اگر کل احتجاجی ریلی کو روکا گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ریلی روکی نہیں گئی۔ سو مہنگائی کے خلاف عمران خان کی ریلی کامیاب رہی۔ حکومتی پارٹی ریلی میں شرکاءکی تعداد گن گن کر خوش ہو رہی ہے۔ لیکن عمران خان نے احتجاج کرنا تھا سو کرلیا۔ حکمرانوں نے سن لیا اور آرام سے دوبارہ گہری نیند سو گئے۔ پاکستان میں خواب خرگوش کے مزے یا حکمران لوٹتے ہیں یا پھر شاید خرگوش۔ آرمی چیف شریف میں اور ایئر چیف بٹ بہادر‘ سوراوی آج کے حکمرانوںکے لئے چین لکھتا ہے لیکن یقین کیجئے حکمرانوںکے لئے چین ہی چین نہیں ہے۔ سیلاب میں نشیب و فراز سبھی جگہ پانی برابر ہو جاتا ہے۔اب مہنگائی صرف غریبوں کا مسئلہ نہیں رہی۔ آہستہ آہستہ مہنگائی کا سیلاب امیروں کے محلوں میں بھی پہنچ گیا ہے۔ لاہور میں مہنگائی کے خلاف ریلی میں عمران نے اپنا مہنگائی کے خلاف ایجنڈا بیان کرنا تھا‘ سو کلام شاعر بزبان شاعر سننے ہم بھی لاہور پہنچ گئے۔ ان دنوں عمران خان سے بدگمان ان کے سابق کالم نگار ہارون الرشید ایک نئی سیاسی جماعت کے ظہور کا بڑے تواتر سے ذکر کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز نے بھی اپنے تازہ کالم میں پاکستان میں سیاسی خلاءکا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اس سیاسی خلاءکو عوام کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کے محدود نظریہ اور ایجنڈ ے کو خاص طور پر لکھا ہے عمران خان صرف ٹیکس کلیکشن اور کرپشن کی روک تھام سے مکل میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ آپ ٹیکس کلیکشن اور کرپشن کی روک تھام سے معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ اسے محدود نظریہ اور ایجنڈانہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ہاں ٹیکس کلیکشن کی صورتحال یوں ہے کہ نصف کے قریب ارکان پارلیمنٹ سروے سے ٹیکس گزاری نہیں پھر کرپشن کے معاملات کچھ یوں کہ سندھی وزیراعلیٰ واویلا مچا رہے ہی کہ ترقیاتی فنڈ کے استعمال میں لائے گئے۔660 ارب روپے کہیں لگے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ پاکستان میں ابھی تک ٹیکس کلچر پیدا نہیں ہو سکا۔ امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں Death duty 40 فیصد ہے یہ وہ ٹیکس ہے جو مرحوم کے ورثاءکو جائیداد کی منتقلی سے پہلی ادا کرنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جا کر متوفی کی جائیداد ان کے نام ہوتی ہے۔
اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ عمران خان کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ اس صوبہ میں کالا باغ ڈیم کے لئے فضا سازگارکریں۔ درست سمت کا تعین کرنا اور قوم کو اس طرف گامزن کرنا ہی ایک قومی رہنما کا کام ہے۔ آج کالا باغ ڈیم کے مردہ جسم میں صرف عمران خان ہی جان ڈال سکتا ہے۔ انہیں اس طرف ضرور توجہ دینی چاہئے۔ عمران خان نے تیس لاکھ ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کی ہے۔ یہ لوگ بڑے گھروں میں رہتے ہیں‘ ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں اور یہ آئے روز غیر ملکی دوروں پر گئے ہوتے ہیں۔ عمران خان نے ان سے ایک لاکھ روپے فیس نکلوانے کی بات کی ہے۔ اس طرح تین سو ارب روپے اکٹھے ہو جائیں گے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی اتنی رقم کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دے رہے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بات تو چل نکلے گی پھر ان تیس لاکھ لوگوں میں زمیندار طبقہ بھی شامل ہے جن پر انکم ٹیکس کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ زرعی ٹیکس واحد ایشو ہے جس پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے پانی کی کمیابی‘ ڈیزل اور کھادوں کی مہنگائی‘ بیجوں کی عدم دستیابی‘ آڑھتیوں کی بدمعاشی حتیٰ کہ چولہا ٹیکس تک کا ذکر آتا جاتا ہے لیکن زمین کے ٹھیکے کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جو کہ سالانہ چالیس ہزار سے ایک لاکھ روپے فی ایکڑ پہنچ چکا ہے۔ اس انکم پر کوئی انکم ٹیکس نہیں ہے جائیداد کے کرایہ پر ٹیکس کی شرح بھی بہت کم ہے۔اسے پچیس فیصد سالانہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ بڑے گھروں کے حق میں صرف رزق حلال کی دلیل کافی نہیں۔ میرے حضور نے فرمایا کہ وضو میں پانی کے استعمال میں احتیاط برتو‘ چاہے تم دریا کنارے ہی وضو کیوں نہ کر رہے ہو۔ پھر فقہ میں ایک قانون حجر بھی ہے۔ جس کے تحت ریاست اپنے کسی شہری کو رزق حلال کو بھی اس طرح استعمال میں لانے سے روک سکتی ہے جس سے دیگر شہریوں کو دلآزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ کیا فرماتے ہیں علماءدین بیچ اس مسئلہ کے ایک فرد خالصتاً اپنے ذاتی استعمال میں کتنی زمین لا سکتا ہے۔ کیا ایک فرد کئی ایکڑوں پر گھاس محض اپنی چہل قدمی کےلئے اگا سکتا ہے؟ مہنگائی اور کرپشن پر قابو پانے کےلئے ہر معاملہ اور پہلو پر غور واجب ہے۔ گورنر ہاﺅس کےساتھ اسی سائز کے پرائیویٹ گھروں کی مذمت بھی ضروری ہے۔ ہمارے ایک پڑوسی ملک بھارت میں ”عام آدمی پارٹی“ اور اس کے لیڈر ارونڈ کجری وال 1000CC گاڑی پاکستانی عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے ادھر عمران خان کے ارد گرد نظر آنےوالے ”بے روزگار“ سے نوجوان بھی 1000CC گاڑی پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ سابق ایرانی صدر احمدی نثراد کی سادہ زندگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ شہنشاہوں کے ملک ایران کے سیاسی کارکنوں نے شاہی کروفر کی بجائے سادہ انداز زندگی اپنایا ہے اور یہی ایک طریقہ ہے مہنگائی اور کرپشن کو روکنے کا یہ 2013ءکا آخری کالم ہے‘ اللہ کرے نیا برس خوشگوار تبدیلیاں لے کر آئے۔ باقی ہم کیا اور ہماری بساط کیا....
اگلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں
اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا
No comments:
Post a Comment