Monday, 30 December 2013

ریلیوں کے ستائے ہوئے لوگ کالم نگار | ڈاکٹر تنویر حسین


  • ریلیوں کے ستائے ہوئے لوگ
    کالم نگار | ڈاکٹر تنویر حسین

    ہمیں ریلیاں نکالنے کا چسکا پڑ چکا ہے۔ کچھ دن ریلیاں سڑکوں پر نظر نہ آئیں تو سیاسی پارٹیوں کے ووٹروں اورسپورٹروں کے بدن ٹوٹنے لگتے ہیں۔ انہیں انگڑائیاں آنے لگتی ہیں۔ ان کی طبیعتیں اوازار رہنے لگتی ہیں۔ ریلیوں میں شریک ہونے والے لوگوں اور تابڑ توڑ چائے نوشوں اور سگریٹ نوشوں میں بڑی گہری مماثلت پائی جاتی ہیں۔ یہ تو ہمارے ان گمان میں بھی نہیں تھا کہ مرشد عمران خان نیٹو سپلائی روکنے کے بعد موئی مکی بے چاری مہنگائی پر ڈرون حملہ فرمائیں گے اور اتنے زور شور کے ساتھ کہ جیسے لاہور کوئی پانی پت کا میدان ہو اور بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان ٹکر ہو۔ جوش ملیح آبادی اگرچہ بڑے شاعر ہیں لیکن یار لوگ ان کے بارے میں کہتے سنے گئے ہیں کہ جوش ہاتھی پر سوار ہو کر جاتے اور پدی مار کر لاتے۔ مرشد نے اچانک گھی کے کنستروں، آٹے کے توڑوں، چینی کی بوریوں اور چائے کے ڈبوں کے خلاف ریلی کے بجائے سونامی نکال دیا ہے۔ ہمارے محترم کالم نگار محترم فضل حسین اعوان سونامی کی اصلاح کی تقطیع 100 نامی کر چکے ہیں لیکن مرشد عمران خان اس تقطیع پر غور نہیں فرماتے۔ گھی کے کنستر آٹے کے توڑے‘ چینی کے بورے‘ چائے کے ڈبے اور پٹرول اپنی اپنی زبانوں میں کہتے ہوں گے کہ لاہور ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ فوڈ اسٹریٹوں‘ کھانے کے تھڑوں اور ریڑھیوں کا گڑھ ہے۔ عالم یہ ہے کہ آپ کسی بڑے یا چھوٹے سے چھوٹے ہوٹل یا کیفے ٹیریا میں چلے جائیں‘ کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملے گی اور مہنگائی بغلیں جھانکتی دکھائی دے گی۔ آج مہنگائی کی ریلی کا منہ توڑ جواب حضرت کیلا نے اکیلے ہی دے دیا ہے۔ ایک صاحب نے مہنگائی کے خلاف ریلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزہ تو جب تھا عمران خان اس وقت ریلی کا اہتمام کرتے جب کیلا عام آدمی کو منہ نہیں لگاتا تھا۔ یعنی اس کا بھاﺅ ڈھائی تین سو روپے درجن چلا گیا تھا۔ اب کیلا اتنا سستا ہے کہ فقیروں کی طرح اللہ کی زمین پر بیٹھا اور ریڑھیوں پر مارا مارا پھرتا نظر آتا ہے اور میر تقی میر کا مصرع بھی سناتا ہے:

    ہم فقیروں سے کج ادائی کیا؟

    میاں نواز شریف صاحب کے پرانے دور میں چھوٹے گوشت کے قصابوں نے ہڑتال کر دی تھی۔ بڑے لوگوں نے چھوٹا گوشت کھانا کہاں چھوڑا تھا۔ یہ لوگ مضافات سے بکرے منگوا لیا کرتے تھے۔ مہنگائی کا علاج ریلیوں، لیلیوں، احتجاجوں اور دھرنوں میں نہیں ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ لوگ اپنے منہ کے ذائقوں اور معدوں کی فرمائشوں کے خلاف کوئی زبردست ریلی نکالیں۔ لاہور میں آپ کسی چکن فروش کے پاس کھڑے ہو کر مشاہدہ کر لیں، گاہک اس طرح نظر آئیں گے، جیسے وہ کسی پیر صاحب کے آستانہ عالیہ پر کھڑے ہوں۔ ہمارے شہر میں بیکریوں کی تعداد دیکھیں اور ان بیکریوں میں سونے کے بھاﺅ ملنے والی اشیائے خورد و نوش دیکھیں۔ آج تک ہم نے کسی بیکری کی کسی آئٹم کے خلاف ریلی نکلتی نہیں دیکھی۔ یہ طلب اور رسد کا چکر ہے۔ ہمارے ہاں لوگ صرف تیل، آٹے، چینی اور دال گوشت ہی کے ستائے ہوئے نہیں ہیں یہاں تک ایسے ایسے ظلم ہو چکے ہیں کہ مظلومین عدالتوں اور تھانے کچہریوں میں دھکے کھاتے کھاتے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ایک پنجابی فلم آئی تھی ”ظلم دا بدلہ“۔ یہاں ظلم تو اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ عوام تو اس کے پارٹ ٹو ”بدلے“ کے منتظر ہیں۔ ہمارے ہاں ریلیوں کی سنچریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ان ریلیوں سے اب تک عوام کو کیا حاصل ہوا ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور ابھی تک ہم نے احتجاج کا طریقہ نہیں سیکھا۔ مہذب ممالک میں کسی ایک دن کسی ایک جگہ احتجاج کیا جاتا ہے۔ یہاں حکومت اور عوام دریا کے دو کناروں کی مانند ہیں۔ یہاں احتجاج کرنے والوں کے مسائل سنجیدگی سے سننے اور حل کرنے کی بجائے ان پر لاٹھی چارج کر دیا جاتا ہے۔ اور ان کے خلاف کیس بنا دیے جاتے ہیں۔ ہمیں احتجاج کرنے کے لئے ایک خاص دن اور خاص جگہ مقرر کرنی چاہئے۔ جن کے پاس اختیارات ہیں وہ بھی عوام کو خبریں پہنچانے کے کام پر مامور ہیں۔ یہاں تو ریلیوں پر ریلیاں نکلتی ہیں اور عوام ان ریلیوں کے ستائے ہوئے بھیڑ بکریوں کی طرح کبھی ایک راستے سے منہ موڑ کر دوسرے راستے پر‘ پھر تیسرے راستے پر‘ پھر چوتھے اور نہ جانے کہاں کہاں سے خجل خوار ہو کر گھروں میں پہنچتے ہیں۔ مسائل کی نشاندہی اخبارات کا کام ہے۔ ان کا حل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس ہونا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment