مسلم لیگ کا یومِ تاسیس اور تقسیم کی داستان کالم نگار | رانا زاہد اقبال
مسلم لیگ کا یومِ تاسیس اور تقسیم کی داستان
کالم نگار | رانا زاہد اقبال
1905ء میں لارڈ کرزن نے خالصتاً انتظامی وجوہ کے پیشِ نظر صوبہ بنگال کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا تھا جس کے خلاف ہندوؤں نے شدید احتجاج شروع کر دیا پرانگریز سرکار نے ہندوؤں کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے اور بنگال کی تقسیم کا یہ منصوبہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو متحد اور منظم ہونے کی ضرورت کا احساس دلایا چنانچہ 30دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی جانب سے بلائے گئے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اس اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔ اگر چہ 1927ء میں جدا گانہ انتخابات اور سائمن کمیشن کے معاملے پر مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ لیکن4مئی1934ء کو مسلم لیگ کی مشترکہ کونسل کا اجلاس دہلی میں ہوا جس میں مسلم لیگ کے تمام دھڑوں نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا جو کہ 10اکتوبر 1913ء میں مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسن کی دعوت پر باقاعدہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ لہٰذا قائدِ اعظم کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر اور حافظ ہدایت حسین کو سیکریٹری منتخب کر لیا گیا۔ قائدِ اعظم کی مسلم لیگ میں شمولیت سے مسلم لیگ کو ایک نئی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی۔ جس کے بعد وہ تاریخ ساز دن آیا جب مسلم لیگ کے 27ویں اجلاس منعقدہ 23مارچ1940ء کو لاہور میں قرار دادلاہور کی منظوری کے بعد قائدَ اعظم نے اپنی تمام مصروفیات کو خیر آباد کہہ کر حصولِ پاکستان کے لئے جد و جہد تیز کر دی۔ جس کے نتیجے میں 14اگست 1947کوپاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ قائدِ اعظم نے 1948ء کے اوائل میں خالق دینا حال کراچی میں یہ کہہ کر مسلم لیگ کی صدارت سے استعفٰی دے دیا تھا کہ بحیثیت گورنر جنرل میں اب مسلم لیگ کا صدر نہیں رہ سکتا لہٰذا جماعت کا نیا صدر منتخب کر لیا جائے۔ یہیں سے مسلم لیگ کی صدارت کے لئے رسہ کشی شروع ہو گئی۔ قائد کی وفات اور لیاقت علی کی شہادت کے بعد اقتدار کی رسہ کشی میں ہولناک واقعات سامنے آئے۔ مسلم لیگ ہر صوبے میں انتشار کا شکار ہو گئی۔
1957ء میں سردار عبدالرب نشتر کی وفات کے بعد عبدالقیوم خان کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیاجو کہ متحدہ مسلم لیگ کے آخری صدر تھے۔ اس وقت پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے عبدالقیوم خان سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر وہ ہماری پالیسی کے مطابق چلیں تو ہم انہیں مستقبل کا وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ کو اقتدار دلانے میں معاونت کر سکتے ہیں۔ خان عبدالقیوم خان کے انکار کے بعد 1958ء میں مارشل لاء لگ گیا۔ وہ وقت تھا جب پہلی بار امریکہ اور فوج کی مداخلت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی لیکن جیسے ہی 1962ء میں پابندی اٹھی مسلم لیگ کے دو گروپ بن گئے۔ ایک نے صدر ایوب خان کو دوسرے نے خوا جہ ناظم الدین کو اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ خواجہ ناظم الدین کی وفات کے بعد کونسل مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی ایک دھڑے کی قیادت ممتاز دولتانہ اور دوسرے کی سردار شوکت حیات کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے مرکزی انتخابات جو وائی ایم سی ہال لاہور میں ہوئے دھاندلی کے ریکارڈ توڑ دئے گئے جس پر خان عبدالقیوم خان نے بطور احتجاج مسلم لیگ قیوم بنا لی ۔
ادھر مشرقی پاکستان میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اس طرح جن لوگوں نے پاکستان کے قیام میں بھرپور حصہ لیا تھا انہیں غدار اور غیر محبِ وطن قرار دے کر میدانِ سیاست سے باہر کیا جا رہا تھا۔ اے کے فضلِ حق، حسین شہید سہروردی، مجیب الرحمٰن اور دیگر راہنما تشدد کا نشانہ بن رہے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کا تقریباً صفایا ہو گیا اور مشرقی پاکستان میں تحریکِ پاکستان کی قد آور شخصیات ہارگئیں۔ اس کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان پیش آگیا۔پاکستان میں مسلم لیگ کی تقسیم جاری رہی اور ضیاء الحق کے مارشل لاء دور تک مسلم لیگ نو دس گروپوں قاسم ، خواجہ خیرالدین ، پگاڑا ، چٹھہ، لیاقت ، قیوم، جونیجو ، کنہاروی اور آگے چل کر نواز، پھر مشرف کے مارشل لاء کے دوران ق اور ہمخیال میں تقسیم ہو گئی۔
No comments:
Post a Comment