Friday, 3 January 2014

زرداری کے ترکش کا مہلک تیر

زرداری کے ترکش کا مہلک تیر
کالم نگار | جی این بھٹ

آج کل پورے ملک کی سیاست جس طرح ایک ’’بلے‘‘ کے گرد گھوم رہی ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے یہ کوئی بلا نہیں بلکہ ’’بلا‘‘ ہے جیسے انگریزوں کے دور میں کوئٹہ کی ’’مم بلا‘‘ مشہور تھی۔ مگر داد دینی پڑتی ہے اس ’’بلا‘‘ کے تخلیق کار پر کہ وہ کس طرح کمال مہارت سے اپنے انتخابی نشان یعنی تیر کی مدد سے کئی شکار کر گیا۔ اس ڈرامہ کے تخلیق کار نے اقتدار پر آنے کی خاطر ناصرف اس ’’بلے‘‘ سے ہاتھ ملایا جس کے ہاتھ اسکی زوجہ محترمہ کے خون سے رنگین ہیں بلکہ اپنے 5 سالہ دور صدارت و حکومت نے اس ’’بلے‘‘ کے بارے میں ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکلا کہ کہیں فوج ناراض نہ ہو جائے اور اس کا دھڑن تختہ نہ کر دے حالانکہ مسلم لیگ (ن)‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی‘ جے یو آئی جیسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر اس حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں مگر اپنی اور اپنی حکومت کو قربان ہونے سے بچانے کیلئے زرداری صاحب نے جس طرح بے نظیر بھٹو کے نام کو، شہادت کو، مشن کو قربان کیا وہ ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آرام و سکون سے اپنا دورِ حکومت مکمل کرنے کے فوراً بعد اچانک پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو بے نظیر بھٹو کی شہادت اور جمہوریت پر آمریت کے شب خون کا درد ستانا شروع ہو گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ زرداری صاحب اپنے دور میں اس ’’بلے‘‘ کو پکڑتے عدالت کے کٹہرے میں لاتے۔ مگر اس وقت تو ’’جان کی امان پاؤں تو عرض کروں‘‘ والی حالت رہی انکی اور اب مسلم لیگ کے دورِ حکومت انتخابات میں اپنی شکست وہ بھی عبرتناک شکست کے زخم چاٹتے ہوئے وہ نہایت مہارت سے مسلم لیگ اور فوج کے درمیان مخاصمت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں۔ اب میاں نواز شریف جیسے بھولے بادشاہ کو کون سمجھائے کہ جناب جمہوریت پر شب خون مارنا ماضی کا قصہ بن چکا۔ آپ دو مرتبہ اس زہر کا پیالہ پی چکے ہیں اب تو آپ عقل سے کام لیں دشمنوں کی چالوں کو سمجھیں جو آپ کو ایک مرتبہ پھر فوج کے مدمقابل لاکر اپنا اُلو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت سے محبت ضرور کریں مگر ایک بار پھر اسے ناکام بنانے کی سازش کا شکار نہ ہوں۔ اس وقت ملک کو مشرف کیس سے زیادہ سنگین اور اہم مسائل کا سامنا ہے ان پر توجہ دیں، عوام کے مسائل حل کریں، ملکی خوشحالی اور ترقی کیلئے سوچیں، گیس بجلی اور پانی کی قلت دور کریں، ملکی دفاع کو مزید مضبوط بنائیں۔ اس وقت اگر آپ ایک جمہوری حکومت کی قیادت کر رہے ہیں اسکو فعال اور بہترین صورت میں عوام کے سامنے لائیں تو کوئی مارشل لاء یا آمریت کی حمایت نہیں کرے گا۔ فوج بھی عوام سے ہے مسائل کا اثر ان کے گھر اور خاندان کو بھی متاثر کرتا ہے۔

یہی خورشید شاہ‘ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے باقی قیادت پہلے کیوں مہر بہ لب تھے حالانکہ اس وقت بے نظیر کا خونِ ناحق تازہ تھا، صدمہ تازہ تھا مگر حکومتی اقتدار کے نشے میں اسکو بھلا دیا گیا۔ یہ بھٹو خاندان کی بدقسمتی ہے کہ اسے ہائی جیک کر لیا گیا نہایت چالاکی سے اور تو اور بھٹو کے ورثے کے ساتھ اسکا نام بھی چوری کر لیا گیا۔ ورنہ المرتضیٰ لاڑکانہ سے لیکر 70 کلفٹن کراچی تک آج بھی بھٹو خاندان کے اصل وارث اور بھٹو خون کے حقیقی امین ذوالفقار بھٹو جونیئر‘ فاطمہ بھٹو اور سسی بھٹو زندہ ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اس نکتہ کو ضرور ذہن میں رکھیں کہ جو لوگ بھٹو اور بے نظیر کے خون کے اصل وارثوں کو کارنر کر سکتے ہیں انہیں کسی شریف خاندان سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اب آصف زرداری نہایت مہارت سے نواز شریف کے کاندھے پر بندوق نہیں توپ رکھ کر چلا رہے ہیں۔ وہ اس چالاک لومڑی کی کہانی یاد رکھیں جو جنگل کے وحشی شیر کی خوراک کیلئے روز کوئی نہ کوئی جانور گھیر کر لاتی تھی بالآخر اس شیر سے نجات کیلئے ایک دن آ کر اُسے بتایا کہ ایک دوسرا شیر آ گیا ہے وہ آپ کا شکار لیکر مجھ سے چھین کر کنویں میں اتر گیا ہے۔ شیر غصہ میں اُٹھ کر کنویں پر آیا تو پانی میں اپنا عکس دیکھ کر بولا میں ابھی اسے سبق سکھاتا ہوں اور کنویں میں کود گیا۔ یوں اس چالاک لومڑی نے اس ظالم شیر سے نجات پائی۔ اس لئے میاں صاحب جمہوریت ہو یا بے نظیر کا قتل ان سب کی تحقیقات اور عدالتی کارروائی ہونا ضروری ہے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں مگر ان کی خاطر پاکستان کے مستقبل اور حال کو قربان اور اداروں کو ٹکرایا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ان امور کو باقی معاملات کی طرح چلنے دیں زبردستی اپنے کاندھے پر سوار نہ کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس وقت ان کے کاندھے پر جمہوریت ہی نہیں عوام کے ووٹوں اور اعتماد کا بوجھ بھی ہے پہلے اس کو اتارنے کی کوشش کریں۔ باقی سب کام عدلیہ پر چھوڑ دیں وہ بہتر انصاف کرے گی۔ اچھی حکومت، اعلیٰ عدلیہ اور بہادر فوج ملکر ملک کے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور سازشوں سے بچ کر رہیں۔
4

No comments:

Post a Comment