کشن گنگا ڈیم: پاکستان کا مستقبل خطرے میں
کالم نگار | محمد سلیمان خان
حیرت انگیز بات ہے کشن گنگا ڈیم کیس میں ہیگ میں Internatiional Court of Arbitration کے فیصلے کے بعد بھارتی اور پاکستانی حکام فیصلے کو اپنی جیت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا ، انٹرنیشنل کورٹ نے پاکستا ن کے رائٹس کو ایک Riparian State کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ اس طرح پاکستان کے رائٹس جہلم اور چناب کے پانیوں کے لحاظ سے تسلیم کئے گئے ہیں۔ جبکہ ہیگ میں بھارتی نمائندہ کے مطابق ICA کے فائنل ایوارڈ میں 9 Cumecs (کیوبک میٹر فی سیکنڈ) کے قدرتی بہاو¿ کو لازم قرار دیا گیا ہے تا کہ اس علاقہ کی انوائرمنٹ بحال رہ سکے۔ 100 Cumecs کے عمومی بہاو¿ کے مقابلہ میں 9 Cumecs کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔یہی نہیں انڈین ماہرین کے مطابق ICA کے فیصلے کو باریک بینی سے دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے۔
ادھر اریگیشن ماہرین کے مطابق واپڈا حکام نے بہاو¿ میں 27% کمی کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے بجلی کی پیداوار میں 10% کمی کا اظہار کیا ہے۔
پاکستانی اداروں پر افسوس ناک حیرت ہوتی ہے کہ سر پر پڑنے کے باوجود بھی انھیں ہوش نہیں آتا بلکہ مختلف توجیہات کے ذریعے شکست کو بھی اپنی جیت کہا جاتا ہے۔ اگر واپڈا کی بات درست مان لی جائے توموسم برسات کے دو مہینوں میں دریائے نیلم کے پانی میں شاید 27%کمی ہو سکتی ہے۔ جس سے ہو سکتا ہے صرف 10% بجلی کم پیدا ہو ۔ لیکن بقایا 10ماہ کیا ہوگا؟ کیا پاکستان نے بارہا نہیں دیکھا کہ فصل کی بوائی کے وقت دریائے چناب کا پانی روک لیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر سال دوسرے سال پاکستان کے سب سے زیادہ زرخیز ترین صوبہ پنجاب کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ کشن گنگا کیس میں واضح طور پر بھارتی پراجیکٹ کشن گنگا کو سبقت لے جانے والا ڈیم قرار دے کر بھارتی مفاد کو بالا دست رکھا گیاہے۔ جہاں تک انوائرمنٹ بحال رکھنے کا تعلق ہے صرف 9 Cumecs کی مقدار کس طرح وادی نیلم کے حسن کو بحال رکھ سکے گی۔جبکہ شائع ہونے والی خبروں کے مطابق خشک سالی کے دوران 11 Cumecs کے بہاو¿ کے پانی گزرنے پر بھی علاقہ کے جنگلات اور باغات کو شدید خطرہ لاحق ہوا تھا۔ اسکے مقابلہ میں صرف 9 Cumecs کے بہاو¿ سے اس وادی کی انوائرمنٹ کس طرح بحال رہ سکتی ہے۔
انوائرمنٹ کی بات تو ایک الگ ایشو ہے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کا ورکنگ سٹیٹس کیا رہ جائے گا۔ اس سچوئیشن میں واپڈا حکام کی بجلی کی پیداوار میں صرف 10%کمی کا دعویٰ انتہائی بھونڈا اور مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے ، پاکستان کے ان ہٹ دھرم حکا م پر جو حکومت اور قوم کو غلط اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم جو 1990ءکی دھائی تک ایک زندہ قوم تھی۔ اس زندہ قوم نے اپنی دلیری اور جانبازی کی داستان رقم کرتے ہوئے ایک سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ بے شمار پابندیوں کے باوجود ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا میں اپنی حیثیت کو منوایا۔ اس وقت کے حکمران باعث احترام تھے۔ جب دنیا میں گرین پاسپورٹ کی عزت تھی۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ میں پاکستانیوں کو عزت سے دیکھا جاتا تھا۔ اور جب ہم نے مغرب کے ایک اشارے پر سرنڈر کیا تو پاکستان دشمن میدان میں حاوی ہوتے چلے گئے۔ اب تو سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی پاکستانیوں کو لائن سے نکال کر ایک طرف کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کی یہ ذلت صرف اس وجہ سے ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی خودی بیچ دی۔ چند ٹکوں کےلئے اپنی سرحدیں ملک دشمنوں کےلئے کھول دیں۔ مجھے 1980-90ءکے دہائیوں کے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ہر طرف امن تھا۔ چوری، راہزنی کی وارداتیں سندھ کے علاوہ بلوچستان کے کچھ علاقوں تک محدود تھیں۔ امن تھا، بھائی چارہ تھا۔ 1991ءمیںانھی چاروں صوبوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کا معاہدہ کیا۔ مستقبل کو سنوارنے کےلئے کالا باغ ڈیم کو شرف قبولیت بخشا۔ اس معاہدہ کو اسفند یار ولی کے والد محترم خان عبدلولی خان نے بھی تسلیم کرتے ہوئے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ لیکن آج جب پاکستان کی معاشی قوت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے۔
کراچی میں Institution of Engineers Pakistan کی سہ ماہی سنٹرل کونسل میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے نیلم جہلم پراجیکٹ کے روح رواں جنرل(ر) انجینئر زبیر نے کہا ، کشن گنگا ڈیم کے فیصلے سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس ڈیم کو مکمل ہونے دیں۔ پھر پاکستان سر پر ہاتھ رکھ کر روئے گا۔ دریائے نیلم کی تو الگ بات ہے، یہ تو خشک ہوگا ہی۔ وولر ڈیم بننے سے دریائے جہلم بھی ایک معمولی نالہ بن جائے گا۔ اس طرح نیلم جہلم پراجیکٹ کا جو حشر ہوگا، منگلا ڈیم بھی خشکی کا منظر پیش کرے گا۔ انھوں نے کالا باغ ڈیم کا نام لئے بغیر کہا‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پانی کے متبادل ذخائر جلد سے جلد تعمیر کر لیں ورنہ 2025ءتو بہت دور کی بات ہے، چند سالوں بعد پاکستان کی سرسبز وادیاں ویران ہو جائیں گی۔ وولر جھیل کے حوالے سے مجھے بارسلوان کنونشن کے وہ پیپر یاد ہیں، جن میں لکھا ہے۔
It (India) could construct a dam on Wular lake in the Kashmir valley and dry up the river Jhelum. A headwork on the Chenab at Dhiangarh, north of Jammu, could deflect the Chenab from its natural course into Pakistan.
ایسی صورت حال پیدا کرنے کےلئے بھارت تابڑ توڑ حملے کررہا ہے۔ اس حملے میں ہمارے اداروں میں چھپے کچھ حکام بھی جو حکمرانوں کو سب اچھا ہے کی خبریں سنا کر قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ دانشور چلا رہے ہیں، آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔ بھارت اور اس کے آقاو¿ں کا جنگی منصوبہ ہے کہ یہ جنگ پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان ہو اور وہ جنگ کئے بغیر اس کی تباہی کا منظر دیکھے۔ کیا پاکستان کے محب وطن مقتدر حلقے اس بات کا نوٹس نہ لیں گے۔ اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں نے آنکھیں نہ کھولیں تو پھر سن لیں: پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے پھر پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گ
کالم نگار | محمد سلیمان خان
حیرت انگیز بات ہے کشن گنگا ڈیم کیس میں ہیگ میں Internatiional Court of Arbitration کے فیصلے کے بعد بھارتی اور پاکستانی حکام فیصلے کو اپنی جیت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا ، انٹرنیشنل کورٹ نے پاکستا ن کے رائٹس کو ایک Riparian State کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ اس طرح پاکستان کے رائٹس جہلم اور چناب کے پانیوں کے لحاظ سے تسلیم کئے گئے ہیں۔ جبکہ ہیگ میں بھارتی نمائندہ کے مطابق ICA کے فائنل ایوارڈ میں 9 Cumecs (کیوبک میٹر فی سیکنڈ) کے قدرتی بہاو¿ کو لازم قرار دیا گیا ہے تا کہ اس علاقہ کی انوائرمنٹ بحال رہ سکے۔ 100 Cumecs کے عمومی بہاو¿ کے مقابلہ میں 9 Cumecs کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔یہی نہیں انڈین ماہرین کے مطابق ICA کے فیصلے کو باریک بینی سے دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے۔
ادھر اریگیشن ماہرین کے مطابق واپڈا حکام نے بہاو¿ میں 27% کمی کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے بجلی کی پیداوار میں 10% کمی کا اظہار کیا ہے۔
پاکستانی اداروں پر افسوس ناک حیرت ہوتی ہے کہ سر پر پڑنے کے باوجود بھی انھیں ہوش نہیں آتا بلکہ مختلف توجیہات کے ذریعے شکست کو بھی اپنی جیت کہا جاتا ہے۔ اگر واپڈا کی بات درست مان لی جائے توموسم برسات کے دو مہینوں میں دریائے نیلم کے پانی میں شاید 27%کمی ہو سکتی ہے۔ جس سے ہو سکتا ہے صرف 10% بجلی کم پیدا ہو ۔ لیکن بقایا 10ماہ کیا ہوگا؟ کیا پاکستان نے بارہا نہیں دیکھا کہ فصل کی بوائی کے وقت دریائے چناب کا پانی روک لیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر سال دوسرے سال پاکستان کے سب سے زیادہ زرخیز ترین صوبہ پنجاب کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ کشن گنگا کیس میں واضح طور پر بھارتی پراجیکٹ کشن گنگا کو سبقت لے جانے والا ڈیم قرار دے کر بھارتی مفاد کو بالا دست رکھا گیاہے۔ جہاں تک انوائرمنٹ بحال رکھنے کا تعلق ہے صرف 9 Cumecs کی مقدار کس طرح وادی نیلم کے حسن کو بحال رکھ سکے گی۔جبکہ شائع ہونے والی خبروں کے مطابق خشک سالی کے دوران 11 Cumecs کے بہاو¿ کے پانی گزرنے پر بھی علاقہ کے جنگلات اور باغات کو شدید خطرہ لاحق ہوا تھا۔ اسکے مقابلہ میں صرف 9 Cumecs کے بہاو¿ سے اس وادی کی انوائرمنٹ کس طرح بحال رہ سکتی ہے۔
انوائرمنٹ کی بات تو ایک الگ ایشو ہے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کا ورکنگ سٹیٹس کیا رہ جائے گا۔ اس سچوئیشن میں واپڈا حکام کی بجلی کی پیداوار میں صرف 10%کمی کا دعویٰ انتہائی بھونڈا اور مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے ، پاکستان کے ان ہٹ دھرم حکا م پر جو حکومت اور قوم کو غلط اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم جو 1990ءکی دھائی تک ایک زندہ قوم تھی۔ اس زندہ قوم نے اپنی دلیری اور جانبازی کی داستان رقم کرتے ہوئے ایک سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ بے شمار پابندیوں کے باوجود ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا میں اپنی حیثیت کو منوایا۔ اس وقت کے حکمران باعث احترام تھے۔ جب دنیا میں گرین پاسپورٹ کی عزت تھی۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ میں پاکستانیوں کو عزت سے دیکھا جاتا تھا۔ اور جب ہم نے مغرب کے ایک اشارے پر سرنڈر کیا تو پاکستان دشمن میدان میں حاوی ہوتے چلے گئے۔ اب تو سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی پاکستانیوں کو لائن سے نکال کر ایک طرف کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کی یہ ذلت صرف اس وجہ سے ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی خودی بیچ دی۔ چند ٹکوں کےلئے اپنی سرحدیں ملک دشمنوں کےلئے کھول دیں۔ مجھے 1980-90ءکے دہائیوں کے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ہر طرف امن تھا۔ چوری، راہزنی کی وارداتیں سندھ کے علاوہ بلوچستان کے کچھ علاقوں تک محدود تھیں۔ امن تھا، بھائی چارہ تھا۔ 1991ءمیںانھی چاروں صوبوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کا معاہدہ کیا۔ مستقبل کو سنوارنے کےلئے کالا باغ ڈیم کو شرف قبولیت بخشا۔ اس معاہدہ کو اسفند یار ولی کے والد محترم خان عبدلولی خان نے بھی تسلیم کرتے ہوئے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ لیکن آج جب پاکستان کی معاشی قوت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے۔
کراچی میں Institution of Engineers Pakistan کی سہ ماہی سنٹرل کونسل میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے نیلم جہلم پراجیکٹ کے روح رواں جنرل(ر) انجینئر زبیر نے کہا ، کشن گنگا ڈیم کے فیصلے سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس ڈیم کو مکمل ہونے دیں۔ پھر پاکستان سر پر ہاتھ رکھ کر روئے گا۔ دریائے نیلم کی تو الگ بات ہے، یہ تو خشک ہوگا ہی۔ وولر ڈیم بننے سے دریائے جہلم بھی ایک معمولی نالہ بن جائے گا۔ اس طرح نیلم جہلم پراجیکٹ کا جو حشر ہوگا، منگلا ڈیم بھی خشکی کا منظر پیش کرے گا۔ انھوں نے کالا باغ ڈیم کا نام لئے بغیر کہا‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پانی کے متبادل ذخائر جلد سے جلد تعمیر کر لیں ورنہ 2025ءتو بہت دور کی بات ہے، چند سالوں بعد پاکستان کی سرسبز وادیاں ویران ہو جائیں گی۔ وولر جھیل کے حوالے سے مجھے بارسلوان کنونشن کے وہ پیپر یاد ہیں، جن میں لکھا ہے۔
It (India) could construct a dam on Wular lake in the Kashmir valley and dry up the river Jhelum. A headwork on the Chenab at Dhiangarh, north of Jammu, could deflect the Chenab from its natural course into Pakistan.
ایسی صورت حال پیدا کرنے کےلئے بھارت تابڑ توڑ حملے کررہا ہے۔ اس حملے میں ہمارے اداروں میں چھپے کچھ حکام بھی جو حکمرانوں کو سب اچھا ہے کی خبریں سنا کر قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ دانشور چلا رہے ہیں، آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔ بھارت اور اس کے آقاو¿ں کا جنگی منصوبہ ہے کہ یہ جنگ پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان ہو اور وہ جنگ کئے بغیر اس کی تباہی کا منظر دیکھے۔ کیا پاکستان کے محب وطن مقتدر حلقے اس بات کا نوٹس نہ لیں گے۔ اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں نے آنکھیں نہ کھولیں تو پھر سن لیں: پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے پھر پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گ
No comments:
Post a Comment