ڈنڈے کا یار
ڈنڈے کا یار
کالم نگار | نوید چودھری
جنرل مشرف کے دور حکومت میں کئی ” کرامتوں “ کا بھی ظہور ہوا۔ایک کرامت یہ بھی تھی کہ لیفٹ رائس کی تقسیم سے بالاتر ہوکر مختلف طبقات اقتدار کے رسیا جرنیلوں کی مذمت کرتے رہے۔لگتا تھا کہ شاید دونوں میں اب کوئی فرق نہیں رہا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔روس کے بعد امریکہ اور بھارت کو اپنا قبلہ بنانے والے کسی اور نیت سے تنقید کرتے تھے جبکہ اپنے نظریے پر قائم رہنے والے دائیں بازو کے حلقے اعتراضات ضرور کرتے تھے مگر ان کے مقاصد کچھ اور تھے اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ 1990ءکی دہائی کے آغاز میں افغان مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے تھے۔ ان دنوں ایک محفل روز جمائی جاتی تھی جس میں لیفٹ رائٹ کے حامی کئی گھنٹوں تک اکٹھے وقت گزار ا کرتے تھے۔افغانستان میں مجاہدین کے مختلف دھڑے آپس میں ہی لڑ رہے تھے۔رائٹ کے زیادہ تر لوگوں کی ہمدردیاں حزب اسلامی کے انجینئر گلبدین حکمت یار کے ساتھ تھیں۔ لیفٹ والوں کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ہوتا تھا۔محفل میں اپنی موجودگی ظاہر کرنے کیلئے کچھ اور نہ بن پڑا تو انہوں نے حکمت یار کے بڑے مخالف کمانڈر احمد شاہ مسعود کی حمایت شروع کردی۔اس پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک سنجیدہ شخص نے نہایت متانت سے وضاحت کرناچاہی تو جواں سال ساتھی آڑے آگیا۔اس نے لیفٹ کے حامیوں سے ازراہ مذاق کہا کہ انجینئر حکمت یار ہویا کمانڈر احمد شاہ مسعود، مولوی نبی محمدی ہویا عبدالرسول سیاف، ربانی ہویا حقانی، ان کے درمیان لڑائی مسلمانوں کا آپس کا معاملہ ہے۔آپ کو کیا تکلیف ہے؟نوجوان کے ان ریمارکس پر محفل میں ہنسی کے فوارے چھوٹ گئے۔
مذاق اپنی جگہ مگر یہ ریمارکس دے کر ایک گہری بات بھی واضح کردی گئی کہ مجاہدین کے مختلف گروپوں پر بائیں بازو کے حلقوں کے تبصرے دراصل بد نیتی پر مبنی اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف تھے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ بائیں بازو کے یہ حلقے ایک عرصہ ہوا اپنا قبلہ ہی تبدیل کرچکے اور اب امریکہ کیدہلیز پر سجدہ ریز ہیں۔ بھارت کے سامنے مستعد ملازم کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ ان حلقوں کی جانب سے پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر تنقید کو اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہئے۔ کوئی عقل کا اندھا ہی بھارت کو پاکستان کا دوست قرار دے سکتا ہے۔وہ ہمارا ہمسایہ ضرور ہے مگر ازلی دشمن بھی ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے ہماری جڑیں کاٹنے کیلئے سازشوں کے جال بن رہا ہے۔پاک فوج بلاشبہ بھارتی عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کرکھڑی ہے۔کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ پاک بھارت سرحدیں مٹانے کی باتیں کرنے والے کس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔اگر نہیں کیا تو اب کرلیں۔ ان طبقات میں اکثریت ایسے عناصر کی ہے جن کے نام تو مسلمانوں جیسے ہیں مگر ان کے گھروں کا ماحول، عادات اور مشاغل بالکل بھارتی اشرافیہ،ارب پتی شخصیات مکیش امبانی اور لکشمی متل جیسے ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت ملک سے باہر گزرتا ہے کیونکہ بچے بھی وہیں زیر تعلیم ہیں اور بھاری اثاثے بھی باہر ہی منتقل کر رکھے ہیں۔ ان لوگوں نے کاروبار کرنا ہوتو اپنی مصنوعات کی مارکیٹ بڑھانے کیلئے سرحدوں کا تقدس پامال کرنے بلکہ مٹانے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے۔ امریکہ تو کیا کسی چھوٹے ملک کا گورا بھی سامنے آجائے تو یہ جھوم اٹھتے ہیں اور اس کے تلوے چاٹنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ گوروں کے غلام یہ کالے صاحبان بھارت کے برہمنوں کو بھی اپنا ان داتا تصور کرتے ہیں۔نظریہ پاکستان، اسلامی آئیڈیالوجی، حب الوطنی، اخلاقیات وغیرہ ان کے نزدیک بے معنی چیزیں ہیں۔ خطرناک بات مگر یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے عناصر بیرون ملک سے ملنے والی ہدایات اور بھاری سرمائے کے بل پر پورے ملک کا تشخص مجروح کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دی گئی تو پاکستان میں موجود بھارت اور امریکہ نواز عناصر کا دل باغ باغ ہوگیا۔ عوام کو اپنی منہ دکھائی کے دوران ان سے مسرت چھپانا مشکل ہورہا تھا۔پاک فوج کو بھی سوچنا ہوگا کہ یہ وہی عناصر ہیں جنہیں کل تک عسکری حلقوں اور خفیہ اداروں نے ہی پال پوس کر ” بڑا“ کیا تھا۔ آج وہ اوقات سے اس قدر باہر ہوگئے ہیں کہ اپنے پرانے محسنوں کو روند کر غیر ملکی آقاﺅں کی غلامی اختیار کرلی ہے۔سقوط ڈھاکہ میں چند جرنیل تو قصور وار ہوسکتے ہیں بلکہ یقینی طور پر تھے بھی مگر پوری پاک فوج کو الزام کیونکردیاجاسکتا ہے۔ کیا سقوط ڈھاکہ کا کوئی سیاسی پہلو سرے سے ہی موجود نہ تھا؟ شراب و شباب کے رسیا جرنیلوں کو سامان نشاط فراہم کرنے والے کون تھے ؟ گمراہ کن غیر فوجی مشیروں کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کئی پردے چاک کرچکی ہے۔کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی بھارت اس کی سالمیت کے درپے ہوگیا تھا۔یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ جیتی جاگتی سچائی ہے کہ مکتی باہنی بنا کر بنگالیوں کو مغربی پاکستان کے شہریوں پر تشدد کارروائیوں کیلئے اکسایا گیا۔ خون کی ندیاں بہانے کے اس کھیل کا ماسٹر مائنڈ بھارت ہی تھا۔ کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں سمیت پاکستان کے مختلف حصوں میں عدم استحکام کا شیطانی کھیل رچانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
سوال جس زبان میں کیاجائے تو جواب بھی اسی زبان میں دیاجاناچاہئے۔ ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جب بھی یہ پالیسی اختیار کی بھارتی قیادت کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ جونہی یہ پالیسی ترک کی گئی مکار ہندو اپنی اصلیت دوبارہ ظاہر کرنے پر آگیا۔ دو قومی نظریہ ایک زندہ جاوید حقیقت ہے۔پاک فوج عوام کا محبوب ادارہ اور جغرافیائی سرحدوں کی نگہبان ہے۔ کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں عام شہری بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کو سعادت خیال کرتا ہے۔بھارت ،افغانستان میں جا کر بھی ہمارا گھیراﺅ کرنے پر لگا ہے اور بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی حسینہ واجد حکومت کے ذریعے بھی ہمیں تنگ کرا رہا ہے۔ شہید پاکستان عبدالقادر ملا کو دی جانے والی سزائے موت دراصل ریاست پاکستان کے تمام حامیوں کو خبردار کرنے کی کوشش ہے کو جو باغیوں کے خلاف فوج اور حکومت کا ساتھ دے گا 42 سال گزرنے کے بعد بھی پھانسی کے پھندے پر لٹکادیاجائے گا۔ افسوس اس سب کے جواب میں حکومت پاکستان نے نہایت کمزور ردعمل ظاہر کیا ہے۔ خود کو خوفزدہ کمزور یا مجبور ظاہر کرکے بھارت کے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھانا گھٹیا دشمن کو جان لیوا وار کرنے کا موقع دفنے کے مترادف ہے۔ہم اپنے پالیسی سازوں کی خدمت میں پھر عرض کیے دیتے ہیں کہ :
” سوال جس زبان میں کیاجائے جواب بھی اسی زبان میں دیناچاہئے “(بشکریہ سٹی 42)
No comments:
Post a Comment