شتگردی کے خاتمے کیلئے اپوزیشن سمیت قوم کو فوج کے شانہ بشانہ ہونا ہو گا
ایڈیٹر | اداریہ
شمالی وزیرستان ‘ جھڑپوں میں 40 غیرملکی شدت پسند ہلاک‘ پی پی پی‘ اے این پی کے اپریشن پر تحفظات
شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد ہزاروں لوگ نقل مکانی کر گئے جبکہ شدت پسندوں کیساتھ جھڑپیں گزشتہ روز بھی جاری رہیں اور ان میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 40 ہو گئی ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میںموساکی ریپی اور حیدرخیل کے دیہات میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ فوج کے آپریشن کے خوف سے لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں سے میران شاہ اور بنوں کی طرف چلی گئی ہے۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق کرفیو کے نفاذ کے بعد میرالی کے بازار میں کچھ لوگوں نے فائرنگ کی اور سکیورٹی فورسز کو جوابی فائرنگ کرنا پڑی۔ مقامی افراد کے مطابق فوجی کریک ڈاﺅن میں اکثر عام شہری مارے گئے ہیں۔ فوجی ذرائع کے مطابق اس کارروائی میں مارے جانیوالے تمام شدت پسندتھے ۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے سکیورٹی فورسز پر حملے برداشت نہیں کئے جائینگے۔ شمالی وزیرستان میں کارروائی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا نتیجہ ہے۔ غیر ملکی شدت پسندوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائیگی۔ دریں اثناءاے این پی اور پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر مملکت شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تحقیقات کرائیں۔ اے این پی کے سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ میرانشاہ اور میر علی میں بچوں اور خواتین سمیت بے گناہ افراد مارے جا رہے ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے بھی کہا کہ صدر فاٹا میں اپنا آئینی کردار ادا کریں۔
شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بدھ کو ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملے کے بعد شروع ہوا۔ دو روز قبل اس حملے کے زخمیوں کو لانے والے قافلے کو نشانہ بنایا گیا تو جوابی کارروائی میں 23 شدت پسند مارے گئے۔ اس دوران فوجی دستے نے بارودی گاڑی کی تیاری کی اطلاع پر چھاپہ مارا تو مقابلے میں دس مزید جنگجو مارے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے اکثر ازبک تھے۔ اسکے بعد علاقے میں کئی دیہات میں کرفیو لگادیا گیا اور لوگ بڑی سطح پر اپریشن کے خوف سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔
شدت پسندوں کی کارروائیوں‘ بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے پورے ملک میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ شمالی وزیرستان انکی آماجگاہ ہے۔ کبھی یہ سوات میں طاقت کی علامت بن چکے تھے۔ انتظامی مشینری فیل ہو چکی تھی۔ مساجد مدارس اور تعلیمی اداروں تک انکے کنٹرول میں تھے۔ حکومت انکی شرائط پر نفاذ شریعت پر آمادہ ہوئی لیکن معاملات سرے نہ چڑھ سکے تو فوج کو کارروائی کرنا پڑی۔ اپریشن راہ حق کے بعد سوات کو ایک بار پھر امن کی وادی بنا دیا گیا۔ جو دہشت گرد بچ گئے‘ وہ علاقے سے فرار ہو گئے۔ کچھ افغانستان چلے گئے اکثر نے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پناہ حاصل کرلی۔
مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت دہشت گردوں کے خاتمے پر کمربستہ رہی۔ مذاکرات کی کوئی تجویز آئی تو موقف اختیار کیا گیا کہ ”شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات صرف انکے ہتھیار پھینکنے پر ہی ہو سکتے ہیں“۔ رحمان ملک کہا کرتے تھے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ان کیخلاف کارروائی جاری رہے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے حکومت میں آتے ہی ان کو مذاکرات کی دعوت دی جس کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم ایک موقع پر ڈرون حملے بند اور قیدی رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ طالبان کے حامی حلقے اسے مثبت پیش رفت قرار دیتے تھے کہ اس دوران میجر جنرل نثار اللہ نیازی کو اور انکے دوسرے ساتھیوں کو بارودی سرنگ دھماکے میں اڑا دیا گیا۔ اسکے ایک دو دن بعد پشاور میں یکے بعد دیگرے خودکش حملوں میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے‘ ان واقعات کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔ حکومت اسکے باوجود مذاکرات کی فدویانہ کوشش کرتی رہی جس کو بڑا دھچکا حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے سے لگا۔ حکیم اللہ محسود اور انکے ترجمان کئی بار کہہ چکے تھے کہ وہ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں نہ اس آئین کے تحت حکومت سے مذاکرات کرینگے۔ ملا فضل اللہ کی قیادت میں اس موقف میں اب مزید سختی آگئی ہے۔ چند روز قبل قومی سلامتی کمیٹی نے ایک بار پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کمیٹی میں وزیراعظم اور مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے۔ طالبان نے اس آپشن کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت فوجی کارروائی کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔ وہ بھی مقابلے کیلئے تیار ہیں۔
جو معاملہ مذاکرات سے طے ہو جائے اس کیلئے بندوق اٹھانا اور گولی چلانا احمقانہ پن ہے لیکن گولی چلانے اور اس میں ہونیوالی ہلاکتوں کا ذمہ دار بلاشبہ وہ فریق ہے جو مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہ ہو۔ میاں محمد نوازشریف کی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پوری کوشش کرکے دیکھ لی۔ قوم مذاکرات پر متفق تھی۔ اگرمذاکرات حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے باعث سبوتاژ ہوئے ہیں تو اس کا حکومت اور دیگر حلقوں کو بھی افسوس ہے۔ بندوق اٹھانے سے شدت پسند سوائے قتل و غارت اور ملک میں پھیلی دہشت و وحشت کی فضا کو مزید مکدر اور گھمبیر بنانے کے سوا کیا حاصل کر سکتے ہیں؟ انکے اور ملک و ملت کے مفاد میں بہترین راستہ مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہے۔ وہ خدا کا خوف اور انسانیت پر ترس کھائیں‘ حکومت کی مذاکرات کی پیشکش پر ایک بار پھر سنجیدگی سے غور کریں اور پاک سرزمین کے دشمنوں کے مقابلے کیلئے فوج کے شانہ بشانہ ہو جائیں۔
موجودہ حالات میں وزیر دفاع کا بیان حوصلہ افزا اور عسکری و سیاسی قیادت کی دہشت گردی کے خاتمہ کی متفقہ سوچ کا عکاس ہے۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے تحفظات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کل تک وہ دہشت گردی کا خود شکار تھی‘ اب وہ شمالی وزیرستان میں اپریشن کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حکومت مذاکرات کے آپشن کو ہنوز مسترد نہیں کر رہی۔ تاہم فوج اپنے اوپر ہونیوالے حملوں پر خاموش نہیں رہ سکتی۔ ایسی کارروائیوں کا اسے جواب دینا اور حملہ کرکے سیف ہاﺅسز میں جانے والوں کا تعاقب بھی کرنا ہوتا ہے۔ اگر مذاکرات کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا تو حکومت فوج کے ذریعے وسیع تر اپریشن کیلئے مجبور ہو گی۔ اس میں کامیابی کیلئے پوری قوم کو متحد ہو کر فوج کے شانہ بشانہ ہونا ہو گا۔ حکومتی اے پی سی میں ملک کی تمام سیاسی قوتیں مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں اپریشن میں فوج کا ساتھ دینے کا یقین دلا چکی ہیں۔ شدت پسندوں کیخلاف دفاعی کارروائیوں میں پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی جماعتیں اپریشن پر تحفظات کا اظہار کرکے فوج کے مورال پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ‘ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تمام اختلافات سے بالاتر ہو کر حکومت اور فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سوات اپریشن ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ فوج کو بالآخر اسی طرف آنا ہو گا۔ فوج نقل مکانی کرنیوالوں کو اسی طرح تحفظ فراہم کرے‘ جس طرح سوات خالی کرانے والوں کا کیا گیا تھا۔
ایڈیٹر | اداریہ
شمالی وزیرستان ‘ جھڑپوں میں 40 غیرملکی شدت پسند ہلاک‘ پی پی پی‘ اے این پی کے اپریشن پر تحفظات
شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد ہزاروں لوگ نقل مکانی کر گئے جبکہ شدت پسندوں کیساتھ جھڑپیں گزشتہ روز بھی جاری رہیں اور ان میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 40 ہو گئی ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میںموساکی ریپی اور حیدرخیل کے دیہات میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ فوج کے آپریشن کے خوف سے لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں سے میران شاہ اور بنوں کی طرف چلی گئی ہے۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق کرفیو کے نفاذ کے بعد میرالی کے بازار میں کچھ لوگوں نے فائرنگ کی اور سکیورٹی فورسز کو جوابی فائرنگ کرنا پڑی۔ مقامی افراد کے مطابق فوجی کریک ڈاﺅن میں اکثر عام شہری مارے گئے ہیں۔ فوجی ذرائع کے مطابق اس کارروائی میں مارے جانیوالے تمام شدت پسندتھے ۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے سکیورٹی فورسز پر حملے برداشت نہیں کئے جائینگے۔ شمالی وزیرستان میں کارروائی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا نتیجہ ہے۔ غیر ملکی شدت پسندوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائیگی۔ دریں اثناءاے این پی اور پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر مملکت شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تحقیقات کرائیں۔ اے این پی کے سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ میرانشاہ اور میر علی میں بچوں اور خواتین سمیت بے گناہ افراد مارے جا رہے ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے بھی کہا کہ صدر فاٹا میں اپنا آئینی کردار ادا کریں۔
شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بدھ کو ایک چیک پوسٹ پر خودکش حملے کے بعد شروع ہوا۔ دو روز قبل اس حملے کے زخمیوں کو لانے والے قافلے کو نشانہ بنایا گیا تو جوابی کارروائی میں 23 شدت پسند مارے گئے۔ اس دوران فوجی دستے نے بارودی گاڑی کی تیاری کی اطلاع پر چھاپہ مارا تو مقابلے میں دس مزید جنگجو مارے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے اکثر ازبک تھے۔ اسکے بعد علاقے میں کئی دیہات میں کرفیو لگادیا گیا اور لوگ بڑی سطح پر اپریشن کے خوف سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔
شدت پسندوں کی کارروائیوں‘ بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے پورے ملک میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ شمالی وزیرستان انکی آماجگاہ ہے۔ کبھی یہ سوات میں طاقت کی علامت بن چکے تھے۔ انتظامی مشینری فیل ہو چکی تھی۔ مساجد مدارس اور تعلیمی اداروں تک انکے کنٹرول میں تھے۔ حکومت انکی شرائط پر نفاذ شریعت پر آمادہ ہوئی لیکن معاملات سرے نہ چڑھ سکے تو فوج کو کارروائی کرنا پڑی۔ اپریشن راہ حق کے بعد سوات کو ایک بار پھر امن کی وادی بنا دیا گیا۔ جو دہشت گرد بچ گئے‘ وہ علاقے سے فرار ہو گئے۔ کچھ افغانستان چلے گئے اکثر نے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پناہ حاصل کرلی۔
مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت دہشت گردوں کے خاتمے پر کمربستہ رہی۔ مذاکرات کی کوئی تجویز آئی تو موقف اختیار کیا گیا کہ ”شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات صرف انکے ہتھیار پھینکنے پر ہی ہو سکتے ہیں“۔ رحمان ملک کہا کرتے تھے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ان کیخلاف کارروائی جاری رہے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے حکومت میں آتے ہی ان کو مذاکرات کی دعوت دی جس کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم ایک موقع پر ڈرون حملے بند اور قیدی رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ طالبان کے حامی حلقے اسے مثبت پیش رفت قرار دیتے تھے کہ اس دوران میجر جنرل نثار اللہ نیازی کو اور انکے دوسرے ساتھیوں کو بارودی سرنگ دھماکے میں اڑا دیا گیا۔ اسکے ایک دو دن بعد پشاور میں یکے بعد دیگرے خودکش حملوں میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے‘ ان واقعات کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔ حکومت اسکے باوجود مذاکرات کی فدویانہ کوشش کرتی رہی جس کو بڑا دھچکا حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے سے لگا۔ حکیم اللہ محسود اور انکے ترجمان کئی بار کہہ چکے تھے کہ وہ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں نہ اس آئین کے تحت حکومت سے مذاکرات کرینگے۔ ملا فضل اللہ کی قیادت میں اس موقف میں اب مزید سختی آگئی ہے۔ چند روز قبل قومی سلامتی کمیٹی نے ایک بار پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کمیٹی میں وزیراعظم اور مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے۔ طالبان نے اس آپشن کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت فوجی کارروائی کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔ وہ بھی مقابلے کیلئے تیار ہیں۔
جو معاملہ مذاکرات سے طے ہو جائے اس کیلئے بندوق اٹھانا اور گولی چلانا احمقانہ پن ہے لیکن گولی چلانے اور اس میں ہونیوالی ہلاکتوں کا ذمہ دار بلاشبہ وہ فریق ہے جو مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہ ہو۔ میاں محمد نوازشریف کی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پوری کوشش کرکے دیکھ لی۔ قوم مذاکرات پر متفق تھی۔ اگرمذاکرات حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے باعث سبوتاژ ہوئے ہیں تو اس کا حکومت اور دیگر حلقوں کو بھی افسوس ہے۔ بندوق اٹھانے سے شدت پسند سوائے قتل و غارت اور ملک میں پھیلی دہشت و وحشت کی فضا کو مزید مکدر اور گھمبیر بنانے کے سوا کیا حاصل کر سکتے ہیں؟ انکے اور ملک و ملت کے مفاد میں بہترین راستہ مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہے۔ وہ خدا کا خوف اور انسانیت پر ترس کھائیں‘ حکومت کی مذاکرات کی پیشکش پر ایک بار پھر سنجیدگی سے غور کریں اور پاک سرزمین کے دشمنوں کے مقابلے کیلئے فوج کے شانہ بشانہ ہو جائیں۔
موجودہ حالات میں وزیر دفاع کا بیان حوصلہ افزا اور عسکری و سیاسی قیادت کی دہشت گردی کے خاتمہ کی متفقہ سوچ کا عکاس ہے۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے تحفظات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کل تک وہ دہشت گردی کا خود شکار تھی‘ اب وہ شمالی وزیرستان میں اپریشن کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حکومت مذاکرات کے آپشن کو ہنوز مسترد نہیں کر رہی۔ تاہم فوج اپنے اوپر ہونیوالے حملوں پر خاموش نہیں رہ سکتی۔ ایسی کارروائیوں کا اسے جواب دینا اور حملہ کرکے سیف ہاﺅسز میں جانے والوں کا تعاقب بھی کرنا ہوتا ہے۔ اگر مذاکرات کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا تو حکومت فوج کے ذریعے وسیع تر اپریشن کیلئے مجبور ہو گی۔ اس میں کامیابی کیلئے پوری قوم کو متحد ہو کر فوج کے شانہ بشانہ ہونا ہو گا۔ حکومتی اے پی سی میں ملک کی تمام سیاسی قوتیں مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں اپریشن میں فوج کا ساتھ دینے کا یقین دلا چکی ہیں۔ شدت پسندوں کیخلاف دفاعی کارروائیوں میں پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی جماعتیں اپریشن پر تحفظات کا اظہار کرکے فوج کے مورال پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ‘ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تمام اختلافات سے بالاتر ہو کر حکومت اور فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سوات اپریشن ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ فوج کو بالآخر اسی طرف آنا ہو گا۔ فوج نقل مکانی کرنیوالوں کو اسی طرح تحفظ فراہم کرے‘ جس طرح سوات خالی کرانے والوں کا کیا گیا تھا۔
 
No comments:
Post a Comment