کالم نگار | بریگیڈیئر (ر) محمود الحسن سید
اپنے سائنسدانوں کی شب و روز کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان نے تقریباً 15 سال پہلے جو ایٹمی صلاحیت حاصل کی وہ دنیا کی نظروں میں لگاتار کھٹکتی رہتی ہے۔کبھی اسے ’’اسلامی بم‘‘ کا نام دیا جاتا تو کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے دوست ملک چین نے یہ ایٹمی صلاحیت ہمیں منتقل کی ہے۔
ایک اور مضحکہ خیز الزام یہ لگایا جاتا ہے پاکستان نے سعودی عرب کو ایٹمی ہتھیار مہیا کئے ہیں۔ یہ خبر پہلی دفعہ 1999ء میں ہمارے ایٹمی دھماکہ کرنے کے ایک سال بعد منظر عام پر آئی۔ دراصل اس افواہ کی اصل وجہ ولی عہد سعودی عرب جناب سلطان بن عبدالعزیز کا دورہ پاکستان تھا جس کے دوران اُن کو ہمارے ایٹمی ریسرچ سنٹر بھی لے جایا گیا۔ لیکن اس پوری کتھا کے بانی اور موجد یہ بھول گئے کہ اس ریسرچ سنٹر کا ہمارے’’ ایٹمی ہتھیاروں‘‘ سے قطعی کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ مزید برآں سعودی عرب نے1998 میں ایٹمی قوت یا ہتھیار بنانے یا حاصل نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی مزید برآں سعودی عرب نے 1999ء میں مشرق وسطیٰ کو Nuclear Weapon Free Zone(NWFZ) یعنی ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کے معاہدے کی بھرپور اور دو ٹوک حمایت کی تھی۔ یہ افواہ خود اپنی موت مر گئی کیونکہ اس میں قطعی کوئی صداقت نہیں تھی۔ لیکن اس جھوٹی کہانیوں کے مصنف دلبراشتہ نہیں ہوئے اور انہوں نے یہ شوشا 2002 میں پھر اٹھایا اس دفعہ بھی اُن کی قطی کوئی پذیر ائی نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ دوبارہ 2003 اور 2006 میںشروع ہوا مگر اسلام دشمن طاقتیں اس دفعہ بھی ناکام رہیں اور وہ نتائج حاصل نہ کر سکیں جن کی اُن کو توقع تھی۔ لیکن اس کے باوجود الزام تراشی کا یہ بھونڈا اور بے بنیاد سلسلہ تا حال جاری ہے۔اس سلسلے میں بی بی سی کے مارک اربین کے مطابق ’’سعودی عرب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے سرمایہ مہیا کیا ہے اور اُس کے مطابق سعودی کو یقین ہے کہ وہ جب چاہے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے‘‘ اس بیان کے ثبوت کے طور پر اسرائیل کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ایموس یادن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’اگر ایران نے ایٹمی ہتھیار بنا لیا تو سعودی عرب ایک ماہ بھی انتظار نہیں کرے گا اور پاکستان سے ایٹمی ہتھیار حاصل کر لے گا کیوں کہ وہ پہلے ہی اس کی قیمت ادا کر چکا ہے‘‘ اس بیان کی تصدیق امریکی صدر کے سابق ایٹمی مشیر گیری سامور نے بھی کی اور اس سلسلے میں اُس نے کہا کہ ’’ سعودی عرب ضرورت پڑنے پر پاکستا ن سے ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے‘‘
اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ایموس یادن کا اسرائیل انٹلیجنس سے تعلق اوراُس کے ملک کی ایران دشمنی اس خبر کو مکمل طور پر مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں اس خبر کی ترید کی ہے کہ سعودی عرب نے ہمارے ایٹمی پروگرام کے لیے رقم مہیاکی ہے۔
ایٹمی ماہرین کے مطابق ایٹمی ہتھیار ایسی جنس نہیں جو کہ ایک ملک دوسرے کو ایک عام شے کی طرح منتقل کر دے کیونکہ کسی بھی ملک کے لیے ایٹمی ہتھیار کے استعمال کے لئے: ایٹمی انجینئر اور سائنسدان کا ہونا لازمی ہے‘‘ ایٹمی ہتھیاروں سے مطلقہ مکمل تمام ساز و سامان اور INFRASTRUTURE یعنی ڈھانچہ ہونا لازمی ہے۔ ایٹمی ہتھیار کو فائر کرنے کے لیے TESTED میزائل سسٹم اور جہازوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سعودی عرب کے پاس مندرجہ بالا سہولیات میں ایک بھی موجود نہیں ۔
قارئین! پاکستان کے 1999ء میں ایٹمی صلاحیت کے حصول کے بعد سے لگاتار اس کے بارے میں مختلف قسم کی افواہوں اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ دراصل یہ تمام ’’ہنگامہ‘‘ اس لیے برپا ہے کہ پاکستان وہ واحد اسلامی ملک جس نے بغیر کسی بیرونی امداد کے ایٹمی ہتھیار تیار کیا۔ اور اس کے سب سے بڑی وجہ ملکی بقااور سلامتی کا تحفظ تھا۔ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار اپنا پیٹ کاٹ کر اور اپنے قابل فخر سانئسدانوں کی شب و روز کاشوں کے بعد بنایا۔ اس میں کسی دوسرے ملک کا کوئی کردار نہیںنیز ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں اور -PROLIFERATION NON پر مکمل یقین رکھتے اور اس پر سختی سے پابند بھی ہیں ۔اس لیے ہماری ایٹمی صلاحیت کے بارے میں ہنگامہ غیر ضروری اور بے جا ہے۔
No comments:
Post a Comment