امریکا سے کیا مانگیں!
کالم نگار | ڈاکٹر تنویر حسین
امریکا جن حکومتوں میں مداخلت کرتا ہے، انکے حکمرانوں سے گا ہے گا ہے پوچھتا رہتا ہے کہ مانگ کیا مانگتا ہے؟ مثال کے طور پر عراق کے صدر نورالمالکی سے پوچھتا ہے کہ مانگ کیا مانگتا ہے تو نورالمالکی کہتے ہیں کہ ہمیں خوراک چاہیے، اسلحہ چاہیے اور دیگر ضروریات زندگی چاہیں۔ اس طرح امریکا جب صدر کرزئی سے پوچھتا ہے کہ مانگ کیا مانگتا ہے تو کرزئی صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں تحفظ چاہیے، اسلحہ چاہیے اور خوراک چاہیے۔ اسی طرح پاکستانی حکمرانوں سے امریکا نے جب پوچھا کہ مانگ کیا مانگتا ہے تو انہوں نے بھی فرمایا ہو گا کہ ہمارے پہلے والے پیسے دے دیں، اسلحہ دیدیں، ٹیکنالوجی دیدیں۔ حالانکہ امریکہ سے مانگے کی ایک ہی چیز ہے جو اس میرے دوست کیساتھ انہیں آنیوالے واقعہ سے واضح ہو سکی ہے۔ میرا دوست ائیر پورٹ پر پہنچا فقیر نے کہا۔ اللہ کے نام پر کچھ دو۔ ہمارے دوست نے ایک لمحے میں جذباتی انداز میں اپنی جیب سے پانچ سو روپے نکال کر دے دیے۔ دوسرے لمحے اسے خیال آیا کہ اسکی جیب تو خالی ہو چکی ہے۔ اسی دوران میں فقیر کی آواز آئی۔ ’’بچہ! مانگ کیا مانگتا ہے‘‘۔ دوست نے کہا۔ ’’میرا پانچ سو لوٹا دیں‘‘۔ اب ہمارے ملک کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی توانائیاں اور دانائیاں کہاں ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں اتنے چرکے لگ رہے ہیں، اتنے زخم لگ رہے ہیں کہ گنے ہی نہیں جا رہے۔ ہم مسلمانوں میں ایک خرابی مدت سے چلتی آ رہی ہے کہ ہم اپنی توانائیاں ان کاموں میں صرف کرتے ہیں،جن کے ثمرات ہمیشہ ہماری بربادیوں کی صورت میں نکلتے ہیں۔ ہم نے کبھی آپس میں ایک ہونے ، بھائی چارے قائم کرنے اور مخلص رہنے کا کبھی عمل تجربہ نہیں کیا۔ جب انگریزوں نے برصغیر میں قدم رکھا تو ان دوررس نگاہوں نے بھانپ لیا کہ مسلمان ایک دوسرے کیساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ یہاں کے بادشاہ، شہزادے، وزیر، مشیر اور سپہ سالار تخت و تاج کیلئے ایک دوسرے کا خون بہانے پر تل جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو انہیں کمزوریوں کے پیش نظر چند ہزار انگریزوں نے کروڑوں لوگوں کو اپنی غلامی کے شکنجے میں کس لیا۔ ہماری صفوں میں سے میر جعفر اور میر صادق آسانی سے مل جاتے ہیں۔ ایران عراق سالہا سال تک ایک دوسرے کاخون بہاتے رہے اور ایک دور سے کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے۔ خون مسلمانوں کا بہا، سکون و اطمینان مسلمانوں کا غارت ہوا۔ اسلحہ غیروں کا بکا اور خوش حالی کا پھل غیروں کے صحن میں ٹپکا۔ جب امریکا نے صدام سے کہا تو میرے پیچھے پیچھے چل، دیکھ اردگرد کے ممالک تیرے پیچھے پیچھے پھریں گے۔ چودھراہٹ کے دروازے الگ کھلیں گے۔ صدام نے پہلا نوالہ کویت کا لیا۔ امریکا کو کویت اور سعودی عرب کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا بہت بڑا پراجیکٹ مل گیا۔ عراق، افغانستان، لیبیا، مصر، شام کی تصویروں کیساتھ ہم اپنے ملک پاکستان کی موجودہ تصویر دیکھیں تو یہ ایک متخرک تصویر ہے، جو امریکا کا ساتھ دینے کیساتھ ساتھ چل رہا ہے ہمارے ملک میں خون بہنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ بنوں اور آراے بازار پنڈی اور اسی سے مماثلت رکھتے اور کئی سانحات واقعات خون کے بہائو کی تیزی کی گواہی دے رہے ہیں۔ افغانستان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں کبھی امن نہیں ہوا۔ پاکستان کو بھی افغانستان نمبر ٹو بنا دیا ہے۔ ہم امریکا پر ملبہ فورا ڈالتے ہیں لیکن ہم مسلمانوں میں آپس میں کتنا سلوک، اتحاد اور خلوص ہے۔ ہمیں یہ تو علم ہے کہ ہندو ہندو کا دوست ہے اور انگریز انگریز کا دوست ہے لیکن عالم اسلام ایک دوسرے کو کتنا دوست ہے؟ کتنا ہمدرد ہے؟ ہمارا خدا ایک، ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور ہماری کتاب ایک لیکن ہم آپس میں ایک نہیں ہوتے۔ امریکا کسی ملک کی شامت لاتا ہے تو دوسرا ملک کہتا ہے کہ اسکی جلدی شامت لائو اب جی چاہتا ہے کہ امریکا ہم سے پوچھے کہ مانگ کیا مانگتا ہے تو ہم کہیں ہمارا وقار، ہماری سالمیت، ہماری صلاحیت، ہمارا امن و سکون اور مرد مومن ضیاء الحق سے پہلے والا پاکستان واپس لوٹا دے۔
No comments:
Post a Comment