Wednesday, 22 January 2014

تعمیر و ترقی اور لیڈی ولنگڈن ہسپتال کا ملال کالم نگار | بیدار سرمدی


تعمیر و ترقی اور لیڈی ولنگڈن ہسپتال کا ملال
کالم نگار | بیدار سرمدی


ہنگاموں‘ دھماکوں‘ مباحثوں اور شور و غوغا کے درمیان لاہور میں تعمیر‘ کشادگی اور تبدیلی کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے اور اس بار لاہور کے اہم ترین مرکز یعنی مینار پاکستان کا ’’آزادی چوک‘‘ بنیادی ہدف ہے۔ آزادی چوک اور اسکے گردونواح میں سب کچھ بدل دینے کیلئے رائیونڈ میں وزیراعظم کو بریفنگ دینے کے بعد حکومت پنجاب حتمی فیصلہ کر چکی ہے کہ اس چوک کو سگنل فری بنانے کیلئے ٹیکسالی سے لکڑ منڈی تک اور دوسری طرف مستی گیٹ تک 4 لین کے دہرے فلائی اوور کو بنانے کیلئے اردگرد سب کچھ ’’صاف‘‘ کر دیا جائیگا۔ اس صفائی میں پون صدی قبل تعمیر ہونیوالا لاہور کا واحد سب سے بڑا زچہ و بچہ کا ہسپتال لیڈی ولنگڈن بھی آرہا ہے جو ایک سو چار کینال رقبے پر ایک تاریخی عمارت کے طور پر لاہور کی ایک کروڑ کی آبادی کیساتھ ساتھ شیخوپورہ‘ قصور اور گوجرانوالہ تک کے عوام کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ ان دنوں ہسپتال پہنچنے کا براہ راست کوئی راستہ نہیں۔ شاہی قلعے کی عقبی سمت سے ہو کر مریض اور ڈاکٹر ہسپتال آرہے ہیں اور چونکہ ریلوے سٹیشن اور دو موریہ پل کی طرف سے آنیوالی ٹریفک باقی تمام راستے بند ہو جانے کے باعث ایک ’’ہڑبونگ‘‘ کی صورت اختیار کر چکی ہے اس لئے لیڈر ولنگڈن ہسپتال کا عملہ جو 90 فیصد لیڈیز پر مشتمل ہے کس عذاب سے دوچار ہے اس کا شاید کوئی اندازہ نہیں کر سکتالیکن کسی بھی بڑے پروجیکٹ کے آغاز سے پہلے براہ راست متاثر ہونیوالے عوامی مرکز یعنی ہسپتال کے سٹاف کو آمدورفت کا تحفظ بنیادی انتظامی مسئلہ تھا اس انتظامی کوتاہی کی ایک سزا تو عوام اور ڈاکٹر بھگت رہے اور دوسری سزا بدنامی کی صورت میں حکمران سیاسی جماعت کے کھاتے میں جائیگی اور اس لئے وزیراعلیٰ پنجاب اور سیکرٹری ہیلتھ بابر حیات تارڑ اور مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کو فوری طور پر اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے۔ کہا جا رہا ہے کہ لیڈی ولنگڈن ہسپتال کی وجہ سے شاہی قلعہ‘ بادشاہی مسجد اور مینار پاکستان کی خوبصورت متاثر ہو رہی تھی اور اسی لئے 104 کینال پر محیط اس ہسپتال کو ایک نئی عمارت میں منتقل کیا جائے گا جو ڈینٹل ہسپتال سے ملحقہ محدود سی جگہ پر تعمیر ہو گی۔ لیڈی ولنگڈن ہسپتال سے رشتہ رکھنے والے ماضی کے بعض سینئر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ اس وقت یہ ہسپتال 235 سے زائد بیڈز کا ہے۔ تین بڑے اور آزاد یونٹ ہیں جن میں درجنوں سینئر ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ ہسپتال میں ایک بڑا فیملی پلاننگ کلینک ہے۔ ایک بڑا نرسنگ سکول ہے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہاسٹل ہیں۔ سینئر سٹاف کیلئے فلیٹس ہیں۔ مریضوں کے متعلقین کیلئے قیام گاہ ہے پارکنگ ہے۔ یہ سب کچھ محدود رقبے پر کسی جدید سے جدید عمارت میں کیسے ممکن ہو گا۔ ینگ ڈاکٹروں کیساتھ پنجاب کی انتظامیہ اور خصوصاً ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا پہلے ہی ’’اٹ کھٹکا‘‘ چل رہا ہے۔ اب ایک نیا موضوع انکے ہاتھ میں ہے۔ میڈیا میں لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے وائی ڈے اے یونٹ کے ڈاکٹروں ماریہ سونیا‘ شمائلہ‘ مدیحہ‘ عظمیٰ‘ رقیہ اور وجیحہ سمیت کئی ڈاکٹر کا بیان آیا ہے اور میو ہسپتال میں ڈاکٹروں کے مسائل پر ہر دم چوکنا رہنے والے ڈاکٹر سلمان کاظمی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ عدالت سے انصاف طلب کرنے جا رہے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ لاہور میں تعمیراتی تبدیلیاں عوام کے مفاد میں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اب تک تعمیر کئے جانیوالے پروجیکٹ انکے دعوے کی تصدیق بھی کرتے ہیں مگر اب لیڈی ولنگڈن کا معاملہ کچھ اور ہے۔ کیا آزادی چوک میں ٹریفک کی روانی کو بغیر بنانے کیلئے اس تاریخی ہسپتال کو منظر سے ہٹانا ضروری تھا؟ اپنی اچھی شہرت کے تسلسل کیلئے انہیں ایک بار پھر سوچنا چاہئے کہ لڑائی اینگل فلائی اوور بھی بن جائے اور اس ہسپتال کی عمارت بھی زیادہ متاثر نہ ہو اور اس سے بھی پہلے اس ایریا میں تعمیرات کے دوران ہسپتال کی ورکنگ اور سٹاف کی آمدورفت کیلئے فوری سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ شاہی قلعہ کا حسن اپنی جگہ‘ اصل حسن عوام کی خوشی میں پنہاں ہے۔ ’’عوام کے بیچوں بیچ اطمینان کیساتھ جانیوالے حکمران کا دربار زیادہ باوقار لگتا ہے۔‘‘ یہ جملہ شیر شاہ سوری کا ہے اور آج کے حالات پر بھی فٹ بیٹھتا ہے۔ ہنگاموں‘ دھماکوں‘ مباحثوں اور شور و غوغا کے درمیان لاہور میں تعمیر و ترقی کیلئے پرجوش وزیراعلیٰ کیا اس معاملے پر ایک بار پھر نظرثانی کر سکیں گے؟

بجھی ہوئی دھڑکنوں کو خوں دے کے پھر جگا دیں

اٹھو چلو اس اداس بستی کو حوصلہ دیں

No comments:

Post a Comment