حکمرانوں کی باتیں
کالم نگار | شوکت علی شاہ
کچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ابو ظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن نوید کا رحیم یار خان جا کر استقبال کیا اور اخباری اطلاع کے مطابق باہمی دلچسپی کے امور پر مذاکرات کیے۔ گو ایک بڑے ملک کے سربراہ کا دارالخلافہ سے باہر جاکر ایک ایسے حکمران کا استقبال کرنا جو نجی دورے پر آیا ہو، غیر معمولی بات ہے لیکن اس قسم کی حکمت عملی کو سمجھنے کیلئے زمینی حقائق کا ادراک ضروری ہے۔ ویسے ملکی معیشت جس نہج پر جاری ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر جس تیزی کے ساتھ گھٹ رہے ہیں انہیں سہار دینے کیلئے اسی قسم کے مہمان کام آسکتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال یہ لوگ اگر چند برس کیلئے تیل ادھار پر دینا ہی شروع کردیں تو موجودہ حکومت اپنے پانچ سال سکون سے گزار سکتی ہے۔ توقعات تو ایک دوسرے عرب ملک سے ہی بہت تھیں لیکن وہ ایسی کڑی شرائط رکھتا ہے جس سے معیشت تو سنبھل جاتی ہے لیکن معاشرہ انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔
بحرحال اس ملاقات نے یاروں کے کئی دریچے کھول دئیے ہیں۔ ان یاروں کا تعلق میری دو کتابوں سے ہے SUN OF THE DESERT جو چھپ چکی ہے اور ’’ شاہ داستان‘‘ جو زیر طبع ہے۔ اختیارات ہتھیانے کے کچھ عرصے بعد آغا حسن عابدی ایوب خان کو ملے اور مشورہ دیا کہ وہ ابوظہبی کے حکمران شیخ زید بن سلطان کو شکار کی دعو ت دیں۔ ’’ ابوظہبی کہاں ہے؟ ‘‘ایوب خان نے قدرے حیران ہوکر پوچھا …’’یہ ایک چھوٹی سی ریاست ہے لیکن بہت جلد اہمیت اختیار کرلے گی کیونکہ وہاں تیل نکل رہا ہے۔ایوب خان آغا حسن صاحب کی فہم و فراست کا مداح تھا۔ چنانچہ شیخ زید کو شکار کی دعوت دی گئی جو اتفاق سے کراچی آیا ہوا تھا چونکہ اس وقت شیخ کے پاس اپنا جہاز نہیں تھا اس لئے پی آئی اے کا فوکر چارٹر کیا گیا جب جہاز سکھر کیلئے اڑا تو PAF کے دوسپر جیٹ اس کو ESCORT کررہے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق شیخ اس قدر مسحور ہوا کہ کھڑکیوں سے کسی ایک جہاز کو دیکھتا تھا اور کبھی دوسرے کو شکار کے بعد وہ ٹرین ٹر بیٹھ کر رحیم یار خان آیا اور کریم داد گجر کے ہاں ٹھہرا۔ تلور کا شکار کرتے ہوئے اس نے ریت کا ایک بہت بڑا ٹیلا دیکھا۔ بولا ’’ کریم داد! دیکھ لینا ایک دن میں یہاں عالیشان محل بنوائونگا۔ میرے پاس ایک ایسا ’’ فلیٹ‘‘ ہوگا جس میں دنیا کا ہر بڑا جہاز ہوگا چنانچہ وہی ہوا رحیم یار خان میں شیخ محل کا شمار دنیا کے چند بڑے محلات میں ہوتا ہے۔اس کے خاندان کے پاس چھبیس جہازوں کا بیڑا ہے جس میں جمبو سے لیکر ائر بس،C130 اور ہیلی کاپٹروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔اب یہ لوگ کسی حکمران کو ملنے نہیں جاتے بلکہ حاکم ان سے درِ دولت پہ دستک دیتے ہیں۔
1986ء میں ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان تھا۔ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے کچھ عرصہ بعد میاں صاحب نے مجھے کہا کہ وہ شیخ زید کے داماد سرور بن محمد سے ملناچاہتے ہیں۔ میں نے شیخ زید کے مشیر ظفر اقبال سے بات کی وہ طنز آموز لہجے میں کہنے لگے WHO IS NAWAZ SHARIF عرض کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب ہیں! بولے کیا آپ چاہتے ہیں کہ بے نظیر کو ناراض کرلیں؟ ان دنوں میاں صاحب اور محترمہ کی چپقلش کے قصے روز اخباروں کی زینت بنتے تھے۔ ملاقات کیلئے میاں صاحب کا اصرار اور ظفر اقبال کا انکار میرے لئے پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔اس سلسلے میں میں نے چوہدری محمد منیر سے رجوع کیا۔ چوہدری منیر ایک نہایت ملنسار اور زیرک انسان ہیں انہوں نے چند مفید مشورے دئیے۔ میں نے شیخ کو ملاقات کے لئے کیسے آمادہ کیا یہ ایک نہایت طویل اور دلچسپ قصہ ہے جسے میں نے اپنی زیر طبع سوانعمری ’’ شاہ داستان‘‘ میں بلاکم و کاست بیان کردیا ہے قصہ مختصر ظفر اقبال کہنے لگے۔ اب بابے ’(شیخ زاہد) سے ہی ملوا دیتے ہیں پروگرام یہ بنا کہ میاں صاحب لنچ کیلئے محل میں آئیں گے۔ وہاں باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوگی۔اس کے بعد شام کو میونسپل گارڈنز میں عصرانہ ہوگا اور دونوں مہمان DRIVE IN STATE کرتے ہوئے اس میں شمولیت اختیار کرینگے۔محترم وزیراعظم کو جب پتہ چلا تو اس نے فارن آفس کے ذریعے احتجاج کیا کہ پروٹوکول کے تحت ایک سربراہ مملکت ایک وزیراعلیٰ کے ساتھ ’ ’ ڈائیو۔ان۔ سٹیٹ‘‘ نہیں کرسکتا۔ شیخ زید نے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے کہا یہ میرا سرکاری نہیں نجی دورہ ہے اور IN ANY CASE I AM COMMITTED اس سے میاں صاحب کے ابو ظہبی کے حکمران سے تعلقات ایک نئی نہج پر آگئے اور محترم کے ساتھ تعلقات یخ بستہ ہوتے گئے۔محل سے میونسپل کمیٹی کا فاصلہ بارہ میل ہے اسکو جھنڈیوں، جھنڈوں اورآرائشی محرابوں سے سجایا گیا۔ کتنا خرچ ہوا؟ اس کا علم اوپر والے یا اس کے معتبر بندے کو ہے! جب اہل شہر کو پتہ چلا کہ بابا جی تشریف لا رہے ہیں توکئی ہزار لوگ درخواستیں لیکر پہنچ گئے ۔ فنکشن سے قبل پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکنا پڑی جب یہ خبر محل پہنچی تو مجھ پر گھبراہٹ طاری ہوئی ظفر اقبال کہنے لگے ۔شاہ صاحب آپ ہمارے بھائی بن گئے ہیں بالفرض گولی بھی چل جائے تب بھی یہ فنکشن ضرور ہوگا۔ بڑا زبردست فنکشن ہوا میاں صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
No comments:
Post a Comment