Tuesday, 14 January 2014

عید میلادالنبی اور قائداعظم کالم نگار | ظفر علی راجا


عید میلادالنبی اور قائداعظم
کالم نگار | ظفر علی راجا

قائداعظم محمد عی جناح کا ظاہری حلیہ اور زبان انگریزوں جیسی تھی لیکن بباطن آپ ایک سچے کھرے مسلمان، اللہ تبارک تعالیٰ کی واحدانیت پر کامل یقین اور حضرت محمد سے دلی عقیدت رکھتے تھے۔ قیام لندن کے دوران نوجوان محمد علی جناح نے ممتاز مغربی سکالر تھامس کارلائل کے ایک لیکچر کا مطالعہ کیا اور حاصل مطالعہ یہ نکلا کہ اپنے نبی سے ان کی عقیدت اور محبت مزید مستحکم ہو گئی۔ اس لیکچر کا عنوان تھا "The Hero as Prophet Maomet"۔ یہ لیکچر 1840ءمیں دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ہندوستان میں اس کا اردو ترجمہ شائع کیا گیا تو اس کا پیش لفظ محمد علی جناح نے تحریر کیا اور لکھا کہ میں نے زمانہ طالب علم میں اس لیکچر کا مطالعہ کیا تھا۔ تب سے اس مرد عاقل کی عظمت میرے دل میں جاگزیں ہے۔ اس نے ہمارے پیغمبر آنحضرت کی زندگی کے تمام حالات اور آپ کے کارناموں کی سچی تصویر کھینچ کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کی بڑی خدمت کی ہے“۔ قائداعظم کی بے شمار تقاریر میں حضرت محمد کے حوالہ جات اور ان سے عقیدت کے رنگ نمایاں ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح کے اسلامی ادراک اور عشق نبی کے حوالے سے تحقیق میں منفرد مقام کے حامل اور قائداعظم کے حضرت محمد سے عقیدت کو اجاگر کرنے والی چھ کتب کے مرتب پروفیسر محمد حنیف شاہد نے ایک محفل میں یہ بتا کر حاضرین کو حیران کر دیا کہ قائداعظم نے مارچ 1935ءمیں جب وہ صرف بیرسٹر محمد علی جناح تھے، ناظم تحریک تنظیم مساجد لاہور، سید سرور شاہ گیلانی کی تحریک ختم نبوت کے دوران عید میلادالنبی کے حوالے سے انگریزی زبان میں ایک طویل لیکچر تیار کیا تھا۔ سید سرور شاہ گیلانی کی دعوت پر جن دوسرے نامور صاحبان علم و فضل نے لیکچر بھجوائے ان میں مولانا ظفر علی خان، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال، علامہ عبداللہ یوسف علی، جسٹس مرزا سر ظفر علی، ڈاکٹر محمد عالم بار ایٹ لائ، چودھری افضل حق اور چودھری سر چھوٹو رام شامل تھے۔ سید سرور شاہ گیلانی نے 1935ءہی میں محمد علی جناح کے انگریزی لیکچر کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے ایک کتابچے کی صورت میں شائع کیا۔ اصل پمفلٹ کی عکسی نقل پروفیسر محمد حنیف شاہد کی مرتب کی ہوئی کتاب ”رحمتہ اللعالمین قائداعظم کی نظر میں“ میں شامل اشاعت کی گئی ہے۔

حضور کی ولادت کے حوالے سے قائداعظم نے لکھا:

”یہ قانون قدرت ہے کہ جب موسم خزاں میں درختوں کے پتے خشک ہو کر چھڑ جاتے ہیں تو بہار کی دلفریب ہوائیں بھی بہت پیچھے نہیں ہوتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ مردہ درختوں کے جسم سے لہلہاتی ہوئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ اور قدرت ایک دفعہ پھر دلفریب دلہن کی طرح حسن کی آسائشوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب عرب گمراہی کی ضلالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل نے ایک ایسے سورج کا طلوع کیا جس کی درخشانی اور تابانی نے تاریک ترین راہگیزاروں کو بھی بقعہ نور بنا دیا۔ 22 اپریل 571ءکو مکہ میں آفتاب رسالت کا طلوع ہوا۔“

حضور کی بعثت سے قبل دنیا کے مختلف حصوں اور مختلف وقتوں کے لئے انبیا کرام تشریف لائے رہے۔ ان کی تعلیم عالمگیر نہ تھی اور عالمگیر ہو بھی کیسے سکتی تھی جبکہ انسانیت کو ارتقائی منازل طے کرنے میں بھی ابھی بہت وقت درکار تھا۔ بالآخر ہمارے ہادی عالم کا ورود مقدس اس وقت ہوا جب دنیا ایک ایسی منزل پر پہنچ چکی تھی جہاں سے وہ حقائق و معارف کے تمام امور کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس لئے ہمارے پیغمبر آخرالزمان کو رحمتہ اللعالمین کے معزز لقب سے خالق اکبر نے سرفراز فرمایا۔“ عید میلادالنبی کے حوالے مئی 1937ءمیں قائداعظم نے ایک عقیدت بھری تقریر کی۔ یہ تقریر آپ نے کاﺅس جی جہانگیر ہال بمبئی میں حضور کے یوم ولادت پر منعقدہ خصوصی تقریب میں کی تھی۔جس میں آپ نے کہا:”حضور سرور کائنات محمد رسول اللہ نے ہمیں نہ صرف ایک مذہب (دین حنیف) دیا بلکہ ایک ضابطہ حیات دیا جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک روحانی، اخلاقی، معاشی اور سیای ضابطہ ہے جس نے دنیا کے بدلے ہوئے تغیر پذیر حالات اور واقعات کا ساتھ دیا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں اور اس میں کوئی بڑائی نہیں کہ ہم محض زبانی حضور کی تعریف کرتے رہیں اور ان کے عطا کردہ نظام حیات کے گیت گاتے رہیں اور اپنے ماضی میں زندہ رہیں۔“ 1945ءمیں عید میلادالنبی کے موقع پر اخبار ”مسلم ویوز“ بمبئی کے مدیر نے قائداعظم محمد علی جناح سے فرمائش کی کہ وہ اس دن کی مناسبت سے اپنے تاثرات بغرض اشاعت بھجوائیں۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے پیغمبر آخرالزمان کے حضور مندرجہ ذیل الفاظ میں ہدیہ¿ عقیدت پیش کیا:

”آپ نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں آپ کو عید میلادالنبی کی تقریب پر پیغام رسال کروں۔ میں آج آپ کو اس کے سوا اور کیا پیغام دے سکتا ہوں کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کو اسلام کی بہترین روایات کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہئے۔ (اس دین کے مطابق) جو دین ہمیں رسول کی وساطت سے ملا ہے۔ اسلام دنیا میں اس لئے آیا تاکہ یہاں جمہوریت۔ امن اور انصاف قائم کرے۔ مظلوموں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ یہ بنی نوع انسان کیلئے امیر اور غریب، بلند اور پست میں مساوات کا پیغام لایا۔“

قیام پاکستان کے بعد 1948ءمیں عید میلادالنبی کے مبارک موقع پرقائداعظم نے کراچی کے قانون دانوں کی اس محفل میں خطاب کرتے ہوئے کہا:

”میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے خوش آمدید کہا.... آج ہم یہاں اس عظیم شخصیت کے حضورخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ جن کے لئے لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی‘ اس عظیم المرتب شخصیت کو کیا خراج عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔“

No comments:

Post a Comment