Tuesday, 14 January 2014

امام اولین و آخریں کالم نگار | شوکت علی شاہ (کالم نگار کی کتاب”پہنچے مرے حضور“ سے اقتباس)

امام اولین و آخریں
کالم نگار | شوکت علی شاہ

(کالم نگار کی کتاب”پہنچے مرے حضور“ سے اقتباس)

ہر دعوت میں، ہر ملاقات پر احباب، عزیز رشتہ داروں کا صرف ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ روضہ رسول پر ان کے لئے دعا کی جائے.... گڑ گڑا کر ، عجزو انکسار کے ساتھ ، دست بستہ! ےامظہر العجائب! میں نے سوچا.... تو نے یہ کیسا انسان کامل بھیجا ہے جس نے قلوب کو منور کیا، اذہان کو جلا بخشی۔ فکر کو آزاد کیا، بتان رنگ و خوں کو پاش پاش کیا، زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا، مرنے کے آداب بتائے، آدمیت کو معراج بخشی، ثبوت حق بھی پیش کیا اور پیغام حق بھی ذہن نشیں کرایا، وہ جو کاروان انبیاءکا قافلہ سالار تھا.... وہ جو افواج دیں کا شہسوار تھا، وہ جو علم و حکمت کا خزانہ تھا، وہ جو جرات و شجاعت کا سکندر تھا۔ پےکر جود و سخا، مرکز صدق و صفا، کتاب اللہ کی زندہ تفسیر، آسمان رسالت کے بدرمنیر، چودہ سو برس بیت گئے، چودہ سو برس بےت جائیں گے، چودہ لاکھ صدیاں گزر جائیں گی، اتباع رسول مےں کمی نہےں آئے گی، عجزو عقیدت کے چشمے کبھی خشک نہیں ہوں گے، کروڑوں ، اربوں انسان اپنی صبح کا آغاز ذات باری تعالیٰ کے بعد اس نام سے کریں گے۔ اپنی شامیں اس کی یاد سے مشکبار کرےں گے .... ایک لاکھ احادیث امام بخاری کو زبانی یاد تھیں۔ مولانا عبداللہ درخواستی کے بارے میں ایسا ہی کہا جاتا ہے۔ جو انہوں نے کہا، جو انہوں نے دیکھا، جو محسوس کیا، جس پر خوش ہوئے، جس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، ماکولات ، مشروبات، معمولات زندگی، اگر دو دندان مبارک شہید ہوتے ہیں تو لوگ اپنے جبڑے توڑ دیتے ہیں، اگر خون کا ایک قطرہ گرتا ہے تو لاکھوں اشک جاری ہو جاتے ہیں۔ موئے مبارک مرجع خلائق بن جاتا ہے۔ پاپوش ، تخت پوش چومتے ہیں۔ دریدہ کالی کملی جو عقیدت کا استعارہ بن گئی۔ مدینہ جو جذبوں کا نگینہ ہو گیا۔ آدم سے لے کر ایں دم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گزرے۔ شاہان پرغرور ، سکندر و دارا آئے اور پےوند خاک ہو گئے۔

.... لاکھوں سالوں میں ، اربوں انسانوں کے بیچ کیا کوئی ایسا انسان پیدا ہوا؟ چشم فلک حیراں ہے۔ دھرتی ناراں، ملائیکہ انگشت بدنداں ، ماورائے فہم و ادراک ، شہنشاہ لولاک، دریتیم.... امی، جو مدینتہ العلم تھا، سراسر حلم تھا، ماہر فن حرب تھا

سید المرسلین، امام اولین و آخریں!

ایک یہودی مورخ فلپ۔ کے۔ ٹی رسالت مآب کی مدح میں یوں رقمطراز ہے۔

"With in the BRIEF SPAN OF HIS MORTAL LIFE Hazarat Muhammad (P.B.U.H.) Called Forth out of UNIPROMISING MATERIAL, A NATION NEVER UNITED BEFORE, INTO A COUNTRY WHICH WAS HITHER TO A GEOGRAPHICAL EXPRESSION And LAID The FOUNDATIONS OF AN EMPIRE Which was Soon EMBRACE Within its FARFLUNG BOUNDRIES The FAIREST PROVINCES OF THE WORLD HIMSE AN UNSCHOOLED PERSON , HE WAS Never the less RESPONSIBLE FAR A BOOK WHICH is Still Considered BY ONE EIGHT OF MANKIND AS EMOBIMENT OF All WISDOM, SCIENCE AND TECHNOLOGY"

(انہوں نے ایک علاقے کو ریاست بنایا، ایک بکھری ہوئی قوم کو سیاسی وحدت کی لڑی میں پرو دیا اور ایک ایسی عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی جس میں دنیا کے تمام مہذب صوبے شامل تھے۔ بظاہر امی شخص نے ایسی کتاب دی جیسے خلق خدا کا آٹھواں حصہ نیوز، فرد، سائنس اور ٹیکنالوجی کا محزن اور منبع تسلیم کرتا ہے) یہی وجہ ہے کہ عکاظ کے میلے میں تمام نے عرب شعرا نے بیک زبان ہو کر کہا تھا۔ یہ بشر کا کلام نہیں ہے کوئی CONSTRUCTIONAL ERROR نہیں ہے اور جسے دنیا میں ہر روز سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ چودہ سو برس بےت گئے ہیں لیکن عقیدت اور ارادت کے چشمے خشک نہیں ہوئے۔

No comments:

Post a Comment