جنگل میں منگل .... کاش ایسا نہ ہوتا
کالم نگار | خواجہ عبدالحکیم عامر
بالاخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا پنجاب حکومت نے 21جنوری تا 5 فروری بسنت منانے کا اعلان کر دیا۔ سمجھ نہیں آ رہی وہ کون سی مجبوری تھی جس نے شہباز شریف ایسے سخت موقف رکھنے والے انسان کو چند منچلوں کی خواہش کے سامنے ڈھیر کر دیا اور وہ عیاش و تماش بین طبقہ کو مسلسل پندرہ دن بسنت منانے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کے چند بے حس مشیروں نے ان کا ذہن بنانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے اور وہ معصوم فرشتوں کی شہ رگیں کٹنے کی تکلیف اور اس تکلیف سے اٹھنے والے بین اور ماتم کو بھلا بیٹھے ہیں۔میں جس شہباز شریف کو جانتا ہوں وہ دھن کا پکا اور حساس انسان ہے مگر یہ کون ہے جس نے خون بہانے کی اجازت دیکر درجنوں ماں باپوں کے روتے ہوئے لتھڑے ہوئے چہروں پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ یہ شہباز شریف حکومت کے خلاف سازش تو نہیں؟ اس سوال پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی مانے نہ مانے مگر یہ سچ ہے کہ بسنت منانے کی اجازت دیکر اور وہ بھی مسلسل پندرہ دن بعض ظالموں نے نہ صرف گزشتہ سات سالوں کی کسر نکالنے کی کوشش کی ہے بلکہ گلے کٹوانے والوں کا منہ بھی چڑایا ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے جاری ہونے والے اجازت نامے کے مطابق بسنت چھانگا مانگا کے جنگل میں منائی جائے گی جہاں پتنگیں اور ڈوریں لوٹنے کا رول جنگل کے جانور ادا کریں گے وہی بو کاٹا کی آوازیں بلند کریں گے وہی پتنگیں کٹنے پر ڈھول بجائیں گے ناچیں فائرنگ کریں گے حکومت کے مطابق بسنت کو ایک ثقافتی جشن کے طور پر منایا جائے گا جبکہ پتنگیں اڑانے کے لئے ڈور حکومت خود مہیا کرے گی۔تقریباً سات سال قبل تک بسنت پر ہونے والی تباہ کاریوں کے باعث سنجیدہ حلقوں کے مطالبہ پر حکومت بسنت پر پابندی لگانے پر مجبور ہو گئی تھی کیونکہ ہر سال بسنت کا صرف ایک دن نہ صرف انسانی خون بہانے لگا تھا بلکہ واپڈا کو کروڑوں کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک ہی دن میں کئی کئی گلے کٹنے لگے تھے۔ سڑکوں پر حادثات کی تعداد بڑھ گئی تھی، بچے چھتوں سے گر کر ہاتھ پاﺅں تڑوانے لگے تھے۔ ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہونے لگا تھا۔ حکومت مرتی کیا نہ کرتی۔ بسنت پر پابندی لگا دی گئی کون سی قیامت آ گئی۔ وہ دن اور آج کا دن بسنت پر پابندی لگ جانے کے باعث لوگوں کا بے حس و بے ضمیر طبقہ چین سے نہ بیٹھا اور حکومت پر زور دیتا رہا کہ پابندی اٹھا لے۔ بالآخر کروڑوں پاکستانی ہار گئے اور رنگین مزاج رکھنے والا طبقہ جیت گیا اور چند روز بعد بسنت منانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور وہ بھی جشن کے طور پر۔
مقام دکھ ہے کہ عوام کی اکثریت لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور دہشت گردی سے دوچار ہے اور پنجاب حکومت دکھوں کی ماری ہوئی عوام کو جشن منانے کی ترغیب و اجازت دے رہی ہے۔ یہ امر حکمرانوں کے لئے باعث شرم ہے یا مسائل زدہ ان عوام کے لئے جو بسنت منانے لگے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے کہ بسنت نائٹوں پر کیا کیا گل کھلائے جاتے رہے ہیں۔
چھانگا مانگا کے جنگل میں پندرہ دنوں تک بسنت منانے کی اجازت دیکر حکومت نے فحاشی و بے راہ روی کو دعوت دی ہے واہیاتی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں چند باتیں اپنے باضمیر اور حساس وزیر اعلیٰ کے گوش گزار کروا رہا ہوں کہ چھانگا مانگا کے جنگل میں ثقافت کے نام پر وہ گند پڑنے والا ہے جس کی براہ راست ذمہ داری حکومت پر آئے گی۔ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ اٹھنے کے روشن امکانات ہیں کیونکہ مدہوشی کے عالم میں انسان سب کچھ کر گزرتا ہے۔
کیا ہماری حکومت پرسکون اور باضمیر و غیرت مند طبقہ کو گارنٹی دینے کی پوزیشن میں ہے کہ جشن بسنت کے دوران صرف حکومت کی فراہم کردہ ڈور ہی استعمال ہو گی۔ حکومت یقیناً گارنٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ حکومت گارنٹی دیتی ہے کہ جنگل میں طوفان بدتمیزی بپا نہیں ہو گا۔ زیادہ چانس یہی ہے کہ حکومت بے بس نظر آئے گی کیونکہ جنگل میں ہونے والی ہلڑ بازی میں حکومتی سورما بھی شریک ہوں گے۔ حکومت ذمہ داری لیتی ہے کہ چھانگا مانگا کے جنگل میں دوران بسنت کوئی دہشت گرد اور خودکش حملہ آور داخل نہیں ہو سکے گا۔ اس بات کو حکومت کیسے یقینی بنائے گی کہ جشن بسنت میں بچ جانے والی ڈوریں اور پتنگیں واپس نہ آنے پائیں۔ اگر بچ جانے والی ڈور اور پتنگیں واپس شہر میں آ گئیں تو کیا فائدہ ہو گا جنگل میں منگل کرنے کا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ جنگل سے واپس آنے والا میٹریل ہماری گلی محلوں کی چھتوں پر کافی عرصہ تک استعمال ہوتا رہے گا جس کے نتیجے میں واپڈا کو بھاری بھرکم نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کئی مزید گلے اور شہ رگیں کٹیں گی اور ٹریفک حادثات میں اضافہ ہو گا۔ جو ہونا تھا ہو گیا بسنت منائی جائے گی اور خوب دھڑلے کے ساتھ کاش ایسا نہ ہوتا۔
کالم نگار | خواجہ عبدالحکیم عامر
بالاخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا پنجاب حکومت نے 21جنوری تا 5 فروری بسنت منانے کا اعلان کر دیا۔ سمجھ نہیں آ رہی وہ کون سی مجبوری تھی جس نے شہباز شریف ایسے سخت موقف رکھنے والے انسان کو چند منچلوں کی خواہش کے سامنے ڈھیر کر دیا اور وہ عیاش و تماش بین طبقہ کو مسلسل پندرہ دن بسنت منانے کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کے چند بے حس مشیروں نے ان کا ذہن بنانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے اور وہ معصوم فرشتوں کی شہ رگیں کٹنے کی تکلیف اور اس تکلیف سے اٹھنے والے بین اور ماتم کو بھلا بیٹھے ہیں۔میں جس شہباز شریف کو جانتا ہوں وہ دھن کا پکا اور حساس انسان ہے مگر یہ کون ہے جس نے خون بہانے کی اجازت دیکر درجنوں ماں باپوں کے روتے ہوئے لتھڑے ہوئے چہروں پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ یہ شہباز شریف حکومت کے خلاف سازش تو نہیں؟ اس سوال پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی مانے نہ مانے مگر یہ سچ ہے کہ بسنت منانے کی اجازت دیکر اور وہ بھی مسلسل پندرہ دن بعض ظالموں نے نہ صرف گزشتہ سات سالوں کی کسر نکالنے کی کوشش کی ہے بلکہ گلے کٹوانے والوں کا منہ بھی چڑایا ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے جاری ہونے والے اجازت نامے کے مطابق بسنت چھانگا مانگا کے جنگل میں منائی جائے گی جہاں پتنگیں اور ڈوریں لوٹنے کا رول جنگل کے جانور ادا کریں گے وہی بو کاٹا کی آوازیں بلند کریں گے وہی پتنگیں کٹنے پر ڈھول بجائیں گے ناچیں فائرنگ کریں گے حکومت کے مطابق بسنت کو ایک ثقافتی جشن کے طور پر منایا جائے گا جبکہ پتنگیں اڑانے کے لئے ڈور حکومت خود مہیا کرے گی۔تقریباً سات سال قبل تک بسنت پر ہونے والی تباہ کاریوں کے باعث سنجیدہ حلقوں کے مطالبہ پر حکومت بسنت پر پابندی لگانے پر مجبور ہو گئی تھی کیونکہ ہر سال بسنت کا صرف ایک دن نہ صرف انسانی خون بہانے لگا تھا بلکہ واپڈا کو کروڑوں کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک ہی دن میں کئی کئی گلے کٹنے لگے تھے۔ سڑکوں پر حادثات کی تعداد بڑھ گئی تھی، بچے چھتوں سے گر کر ہاتھ پاﺅں تڑوانے لگے تھے۔ ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہونے لگا تھا۔ حکومت مرتی کیا نہ کرتی۔ بسنت پر پابندی لگا دی گئی کون سی قیامت آ گئی۔ وہ دن اور آج کا دن بسنت پر پابندی لگ جانے کے باعث لوگوں کا بے حس و بے ضمیر طبقہ چین سے نہ بیٹھا اور حکومت پر زور دیتا رہا کہ پابندی اٹھا لے۔ بالآخر کروڑوں پاکستانی ہار گئے اور رنگین مزاج رکھنے والا طبقہ جیت گیا اور چند روز بعد بسنت منانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور وہ بھی جشن کے طور پر۔
مقام دکھ ہے کہ عوام کی اکثریت لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور دہشت گردی سے دوچار ہے اور پنجاب حکومت دکھوں کی ماری ہوئی عوام کو جشن منانے کی ترغیب و اجازت دے رہی ہے۔ یہ امر حکمرانوں کے لئے باعث شرم ہے یا مسائل زدہ ان عوام کے لئے جو بسنت منانے لگے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے کہ بسنت نائٹوں پر کیا کیا گل کھلائے جاتے رہے ہیں۔
چھانگا مانگا کے جنگل میں پندرہ دنوں تک بسنت منانے کی اجازت دیکر حکومت نے فحاشی و بے راہ روی کو دعوت دی ہے واہیاتی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میں چند باتیں اپنے باضمیر اور حساس وزیر اعلیٰ کے گوش گزار کروا رہا ہوں کہ چھانگا مانگا کے جنگل میں ثقافت کے نام پر وہ گند پڑنے والا ہے جس کی براہ راست ذمہ داری حکومت پر آئے گی۔ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ اٹھنے کے روشن امکانات ہیں کیونکہ مدہوشی کے عالم میں انسان سب کچھ کر گزرتا ہے۔
کیا ہماری حکومت پرسکون اور باضمیر و غیرت مند طبقہ کو گارنٹی دینے کی پوزیشن میں ہے کہ جشن بسنت کے دوران صرف حکومت کی فراہم کردہ ڈور ہی استعمال ہو گی۔ حکومت یقیناً گارنٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ حکومت گارنٹی دیتی ہے کہ جنگل میں طوفان بدتمیزی بپا نہیں ہو گا۔ زیادہ چانس یہی ہے کہ حکومت بے بس نظر آئے گی کیونکہ جنگل میں ہونے والی ہلڑ بازی میں حکومتی سورما بھی شریک ہوں گے۔ حکومت ذمہ داری لیتی ہے کہ چھانگا مانگا کے جنگل میں دوران بسنت کوئی دہشت گرد اور خودکش حملہ آور داخل نہیں ہو سکے گا۔ اس بات کو حکومت کیسے یقینی بنائے گی کہ جشن بسنت میں بچ جانے والی ڈوریں اور پتنگیں واپس نہ آنے پائیں۔ اگر بچ جانے والی ڈور اور پتنگیں واپس شہر میں آ گئیں تو کیا فائدہ ہو گا جنگل میں منگل کرنے کا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ جنگل سے واپس آنے والا میٹریل ہماری گلی محلوں کی چھتوں پر کافی عرصہ تک استعمال ہوتا رہے گا جس کے نتیجے میں واپڈا کو بھاری بھرکم نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کئی مزید گلے اور شہ رگیں کٹیں گی اور ٹریفک حادثات میں اضافہ ہو گا۔ جو ہونا تھا ہو گیا بسنت منائی جائے گی اور خوب دھڑلے کے ساتھ کاش ایسا نہ ہوتا۔
No comments:
Post a Comment