آج ایک خبر کے مطابق سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایچ ای سی کا چیئرمین بنائے جانے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی اپنی ترقی اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں کامیاب جدوجہد کے حوالے سے پاکستان کی صف اول کی یونیورسٹیوں میں شمار ہونے لگی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اس حوالے سے پاکستان کی سب سے بڑی اور پرانی یونیورسٹی ہے۔ دلیر اور دانشور وائس چانسلر کے طور پر ڈاکٹر مجاہد کامران نے اس مادر علمی کی سرحدیں مادر وطن کی سرحدں کے ساتھ ملا دینے کی شاندار کوشش کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کے لئے بھی قومی سطح پر سوچا گیا تھا کہ انہیں ایچ ای سی کا چیئرمین بنایا جائے۔ مگر انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں رہنے کو ترجیح دی۔ وہ اپنے تعلیمی اور تخلیقی مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی کچھ کام باقی ہے۔
ڈاکٹر اکرم چودھری پہلے پنجاب یونیورسٹی میں تھے اور وہ سرگودھا یونیورسٹی کے لئے پنجاب یونیورسٹی کو اپنے سامنے مثال کے طور پر رکھتے ہیں۔ وہ بہترین استاد اور ماہر تعلیم ہیں۔ ان کی ضرورت سرگودھا یونیورسٹی میں بہت ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کو ایک اہم ادارہ بنانے کے لئے بہت کام کیا ہے۔ اداروں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اداروں کی مضبوطی بہت ضروری ہے مگر ادارے کے سربراہ کا اہل ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ کئی لوگ اداروں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ادارے کے وقار اور اعتبار میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے لئے اخلاص اور اہلیت دونوں اہم ہیں۔ وہ انسان جو کام کرنا جانتا ہو۔ بہادر ہو مستحکم مزاج اور استقامت رکھتا ہو۔ پنجاب یونیورسٹی کو نیا زمانہ عطا کرنے کے لئے ڈاکٹر مجاہد کامران کی شخصیت کی مثال بہت حوصلہ دیتی ہے۔ ڈاکٹر اکرم چودھری نے سرگودھا جیسے علاقے میں اپنے اس تجربے سے بہت فائدہ اٹھایا جو پنجاب یونیورسٹی میں انہیں حاصل ہوا ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی کیمپس میں شہر کے ہمسائے میں میڈیکل کالج بنوایا گیا ہے۔ یونیورسٹی میڈیکل تشخیصی مرکز اور فارمیسی کے لئے اہتمام ہوا ہے۔ پینے کا صاف پانی بڑے شہروں سے دور آسانی سے میسر نہیں ہوتا۔ منرل واٹر پلانٹ بھی لگوایا گیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی طرح سٹوڈنٹس ٹیچر سنٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کیمپس میں نئی عمارات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ نئے ہوسٹلز بھی تعمیر ہو رہے ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی ایک تعلیمی نعمت کی طرح ہے۔ یہاں آ کے دل خوش ہوتا ہے۔ سرگودھا کے ساتھ مختلف شہروں میں یونیورسٹی کیمپس کھولے گئے ہیں۔ میانوالی بھکر منڈی بہاﺅالدین گوجرانوالہ کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد میں سرگودھا یونیورسٹی کیمپس بنائے گئے ہیں۔ یہ خیال بھی حال ہی میں گوجرانوالہ جہلم اور دوسرے شہروں میں پنجاب یونیورسٹی کی شاخیں بنانے کے اقدام سے ڈاکٹر اکرم چودھری کے ذہن میں آیا ہے۔
ڈاکٹر اکرم چودھری کے ساتھ کام کرنے والے سب لوگ ان کی طرح کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی کے پی آر او سیف الرحمن انتظامی امور میں بہتری لانے کے لئے وی سی صاحب سے مکمل تعاون کرتے ہیں۔ میری دلچسپی کی بات یہ ہے کہ وہاں اردو کے شعبے میں علمی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ تحقیق و تدریس کے معاملات میں بہت دلچسپی لی جاتی ہے۔ شعبے کے صدر ڈاکٹر سید عامر سہیل ایک قابل آدمی ہیں۔ اس سے پہلے معروف ماہر تعلیم محقق اور شاعر ڈاکٹر طاہر تونسوی صدر شعبہ¿ اردو تھے۔ انہوں نے تعلیمی اور تخلیقی سرگرمیوں میں بہت زور شور پیدا کر دیا تھا۔ ڈاکٹر عامر محمود بھی شعبے کی ترقی اور مقبولیت کے لئے بہت محنت کر رہے ہیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری شہر میں ایک مقبول شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کا یہ کارنامہ تو ان کے نام کے ساتھ ہی منسوب رہے گا کہ سرگودھا کے مخصوص پھل ”کینو“ کو بیماری سے بچانے کے لئے انہوں نے یونیورسٹی میں فری نرسری کا اہتمام کیا اور یونیورسٹی کے ایگریکلچرل کالج کی طرف سے 20 ہزار پودے لوگوں کو مفت فراہم کئے گئے۔ میرے خیال میں انہیں سرگودھا یونیورسٹی میں رہنا چاہئے۔ اگر ایچ ای سی والے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو سرگودھا یونیورسٹی کے لئے کوئی بہتر اہتمام کریں۔
اتنی دیر تک ایک اہم اعلیٰ تعلیمی دفتر کو چیئرمین کے بغیر نہیں رہنا چاہئے۔ اس کے لئے ایچ ای سی کے سابق چیئرمین نے عدالت میں درخواست دی ہوئی تھی۔ 18 فروری تک کوئی فیصلہ کرنے کے لئے عدالت نے حکومت کو ہدایت جاری کی ہے۔ ڈاکٹر عطاالرحمن نے اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے بہت مواقع اور آسانیاں پیدا کیں۔ ہر طرف سے اُن کی تعریف ہوئی۔ ان کے زمانے میں بڑا کام ہوا اس کے لئے ڈاکٹر مجاہد کامران کا نام نہایت موزوں اور جینوئن تھا۔ انہوں نے خود برادرم پرویز رشید سے بات کی اور پنجاب یونیورسٹی کے لئے اپنے کام کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مہلت مانگی۔ اس کے بعد ان کی خدمات اس سلسلے میں بھی اہم ہیں ۔
No comments:
Post a Comment