کلر سیداں: جس ملک میں سابق وزیراعظم کی بیٹی، دو بار وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر رہنے والی اور ایک بڑی سیاسی پارٹی کی رہنما کو دن دیہاڑے ہزاروں چاہنے والوں کے درمیان قتل کردیا گیا ہو اور اب تک اس کے لواحقین انصاف حاصل کرنے میں ناکام ہوں، وہاں ایک سرکنڈوں کے گھروں میں رہنے والی اور لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے خاندان کے پیٹ کی آگ بجھانے والی خاتون کو دن دیہاڑے کلہاڑی سے ذبح کردیا جائے تو اس کے خاندان کو انصاف ملنا کس قدر مشکل ہوگا؟
وہ غریب ہیں مگر بے غیرت نہیں، مانگ کر کھانا انھوں نے سیکھا ہی نہیں۔ سارا خاندان مزدوری کرتا ہے۔ لکھی خان، اس کی پینتالیس سالہ بیوی فاطمہ بی، ان کے بچے سات سالہ شبنم اور بارہ سالہ روبینہ کے علاوہ صابر، ناصر اور پروین سارے محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روکھی سوکھی کما کر کھاتے تھے۔
آج سے پینتیس سال پہلے یہ خاندان کشمیر سے محنت مزدوری کرتا چلو میرگالہ کے قریب موہری کے مقام پر رہنے لگا۔ علاقے کے چند نیک دل چودھریوں نے اس خاندان کو مفت میں زمین دے دی تھی۔ چناں چہ یہ خانہ بہ دوشی کی زندگی ترک کرکے ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ لکھی خان دیہاڑی دار مزدور ہے اور روزانہ صبح گھر سے نکل جاتاہے، اس کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس کی بیوی فاطمہ کا بھی یہی وتیرہ تھا۔
12 نومبر 2013، محرم الحرام کی سات تاریخ، صبح تقریباً 9 بجے کا عمل، فاطمہ اپنے خاندان کی ایک خاتون کے ہم راہ حسب معمول کام کاج کے لیے نکلی، جب سڑک کے قریب پہنچی تو علاقے کا با اثر شخص اکیالیس سالہ محمدیونس مرزا ہاتھ میں کلہاڑی لیے نمودار ہوا۔ فاطمہ نے اسے دیکھا تو راستہ بدلنے کی کوشش کی اور تیز قدموں سے چلنے لگی لیکن یونس مرزا نے پیچھا کیا اور تھوڑے ہی فاصلے پر جاکر پیچھے سے کلہاڑی کا وار فاطمہ کی گردن پر کیا، جس سے گردن آدھی سے زیادہ کٹ گئی اور خون کا فوارہ بہ نکلا۔ فاطمہ نے تڑپ تڑپ کر وہیں جان دے دی۔ ملزم واردات کے بعد پورے اطمینان سے قریب ہی واقع اپنے گھر چلا گیا۔
محرم الحرام میں بے گناہ خاتون کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح علاقے بھر میں آناً فاناً پھیل گئی۔ جائے واردات پر لوگوں کاجم غفیر لگ گیا۔ تھانہ کلرسیداں کو اطلاع دی گئی۔ پولیس افسر واجد علی مع سول کپڑوں میں ملبوس دو اہل کاروں کے ایک گھنٹے کے بعد موقع پر تشریف آور ہوئے۔ مقتول کے لواحقین نے دہائی دی کہ ملزم گھر میں موجود ہے، اسے فوری طور پر گرفتار کیا جائے مگر پولیس نے ان کی سنی ان سنی کردی۔ مظلوم خاندان کو نعش بھی پرائیویٹ گاڑی پر کلرسیداں ٹی ایچ کیو لانا پڑی۔ یہاں موجود ڈاکٹر مشتاق احمد سحر نے لواحقین سے کہا کہ ہمارے پاس ڈاکٹر موجود نہیں لہٰذا گوجر خان سے ڈاکٹر بلا کر پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔ پانچ گھنٹوں کے تکلیف دہ انتظار کے بعد گوجرخان سے ڈاکٹر آیا اور اس نے پوسٹ مارٹم کیا۔
مظلوم خاندان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا، انھوں نے نعش کلر سیداں بائی پاس پر رکھی اور سڑک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردی۔ کئی گھنٹے مظاہرہ جاری رہا، مظلوم خاندان کا مطالبہ تھاکہ پولیس نے ہمارے ساتھ اچھا سلو ک نہیں کیا اور با اثر ملزم کو گھر میں موجود ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کیا، جس پر پولیس کے خلاف سخت ایکشن لیا جانا چاہیے اور ملزم کی فوری گرفتاری یقینی بنائی جائے۔ اس کے علاوہ ٹی ایچ کیو کلرسیداں میں ڈاکٹروں کی جانب سے ہونے والی بدسلوکی پر بھی لوگ سخت برہم تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ڈاکٹروں کے خلاف ایکشن لے کر انہیں معطل کیا جائے۔ کئی گھنٹوں کے بعد ڈی ایس پی موقع پر آیا اور اس کی یقین دھانی پر مظلوم خاندان نے مظاہرہ ختم کیا۔ اسی رات پولیس نے دباؤ کی وجہ سے ملزم اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔
سوال یہ ہے کہ علاقے کا ایک بااثر شخص ایک غریب اور مزدورخاتون کو یوں پیچھے سے کلہاڑی کے وار سے ذبح کررہاہے، آخر وجہ عناد کیا ہے؟ میں نے یہ ہی سوال مقتولہ کے بھائی زبیر سے پوچھا تو وہ گویا ہوا ’’ہم غریب لوگ ہیں، محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے ہیں، کچھ عرصہ قبل میری بہن فاطمہ کام کاج کے سلسلے میں اسی راستہ سے جارہی تھی کہ مرزا محمد یونس ولد عبدالحسین نے اسے چھیڑا اور کہا کہ میری خواہشِ پوری کر دو!، جس پر میری باغیرت بہن نے مرزا پر پتھروں کی بارش کردی، مسلسل پتھرلگنے کی وجہ سے مرزا نے بھاگ کر جان بچائی، یہ منظر بہت سے لوگوں نے بھی دیکھا اور یوں مرزا کی جگ ہنسائی کاسامان بنا، جس پر مرزا کی مردانگی کو شدید دھچکا لگا، ایک غریب خاتون نے نہ صرف اس کی شیطانی خواہش کو پور انہیں کیا بل کہ اسے پتھروں سے مارابھی۔
جب یہ بات ہمارے خاندان کے مردوں تک پہنچی تو ہم نے جرگہ کے ذریعے مرزا کی زیادتی پر احتجاج کیا، جس پر ملزم کے چچا مرزا یوسف نے معاملہ رفع دفع کرا دیا اور یقین دلایا کہ آئندہ مرزا یونس ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ ملزم کو اس بات کا رنج تھا اور وہ موقع کی تاک میں تھا کہ کسی طرح بدلہ لے سکے لہٰذا اس نے بزدلانہ حرکت کرتے ہوئے ایک نہتی خاتون پر ہاتھ اٹھایا اور پیچھے سے وار کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ایک انتہائی بزدل انسان ہے بل کہ انسان کہلانے کا استحقاق بھی نہیں رکھتا۔‘‘
مقتولہ کی ستر سالہ بوڑھی والدہ بوئی جان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ اونچی آواز میں بین کر رہی تھی ’’ظالم انسان نے میری بے گناہ بیٹی کو ناحق قتل کر کے محرم میں یزیدی ہونے کا ثبوت دیاہے، ہم غریب ہیں، بے غیرت نہیں، میری بچی نے جام شہادت نوش کیا ہے، وہ قیامت کے دن اما م حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اٹھے گی جب کہ ملزم یزید و شمر کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ میری بیٹی کے قاتل کو پھانسی دی جائے اور ہمیں بااثر خاندان کے شر سے بچایاجائے۔‘‘
مقتولہ کا اڑسٹھ سالہ باپ محمد یعقوب پاس ہی بیٹھا تھا، اس کا کہنا تھا ’’ظلم کی انتہا ہوگئی، پولیس دیر سے آئی، پوسٹ مارٹم دیر سے ہوا، مقدمہ دیر سے درج ہوا، ملزم دیر سے گرفتارہوا ۔۔۔ ہم نے احتجا ج کیا، کوئی معطل ہوا، نہ کسی کے خلاف ایکشن لیا گیا۔ اس کی وجہ ہماری غربت اور بے بسی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ہر مظلوم خاتون کے گھر پہنچ جاتے ہیں، میری بیٹی نے اپنی عزت کی خاطر جان دے دی، کیا وہ میرے گھربھی تشریف لائیں گے؟ مجھے پورا یقین ہے کہ شہباز شریف ضرور میرے کچے اور بوسیدہ مکان میں آکر ہمیں حوصلہ دیں گے اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے احکامات جاری کریں گے‘‘۔
سات سالہ شبنم اور بارہ سالہ روبینہ نے جب سے اپنی ماں کے کٹے ہوئے گلے اور بہتے ہوئے خون کو دیکھا ہے، وہ سخت خوف زدہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’ملزم دولت والے ہیں، وہ ہماری ماں کی طرح ہمارے گلے بھی کاٹ دیں گے‘‘۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ ملک امیروں اور طاقت وروں کے لیے بناہے، غریب تو بس ووٹ دینے اور ظلم سہنے کے لیے ہے۔‘‘
مقتولہ کے بیٹے صابر اور ناصر کا کہنا تھا’’ اب توچیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری بھی نہیں ہیں، ہم کس سے کہیں کہ سوؤ موٹو نوٹس لے۔ غریب کی کون سنتا ہے؟ یہاں نیچے سے اوپر تک ’’ کتی چوروں‘‘ سے ملی ہوئی ہے، ہمیں اپنی ماں پر فخر ہے کہ اس نے جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ باغیرت لوگ جان دے دیتے ہیں لیکن کسی کمینے اور بااثر کے آگے جھکتے نہیں، ہماری ماں شہید ہے، ہمارے پاس تو وکیل کرنے کے لیے فیس ہے، نہ عدال، کچہری جانے کے لیے کرایہ، ہمیں انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں۔؟‘‘
مقتولہ کا خاوند لکھی خان البتہ پر امید ہے ’’میری بیوی کے قاتل کو ضرور سزا ملے گی، وہ اپنے کیے کی سزا ہر حال میں بھگتے گا، قتل کا بدلہ صرف قتل، یہ تو قرآن کا حکم ہے، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان۔ ملزم نے جو ظلم کیا ہے اس کی سزا کے لیے تیار رہے، خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف مظلوم خاتون کے قاتل کے خلاف کیس ٹرائل کرائیں گے اور اسے تختۂ دار تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں گے‘‘۔
بوسیدہ اور چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل مکانوں میں رہنے والے اس مظلوم خاندان کی بپتا دل دہلانے والی ہے، مظلوم خاتون کو سڑک کنارے دن دہاڑے ذبح کردیا گیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ہیں، عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر بننے والی سیکٹروں این جی اوز چپ سادھے ہیں، کیا پورے ملک میں کوئی ایک ادارہ بھی نہیں جو اس مظلوم خاتون کے بہیمانہ اور سفاکانہ قتل پر ایکشن لے سکے؟ درد دل رکھنے والے لوگوں کی نگاہیں روزانہ آسمان کی جانب اٹھتی ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا ہیلی کاپٹر کب یہاں اترے گا؟ اگر ایسا نہ ہوا تو آسمان سے عذاب الہیٰ اترنے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، ’’اور جب آسمان پھٹ پڑے گا۔ القرآن‘‘
No comments:
Post a Comment