Tuesday, 21 January 2014

کمانڈو جنرل کو روکو مت جانے دو! کالم نگار | اسرا ر بخاری

کمانڈو جنرل کو روکو مت جانے دو!
کالم نگار | اسرا ر بخاری
انسان خود اپنا امیج بناتا اور خود ہی بگاڑتا ہے، تاریخ ہی نہیں ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو ایسے کردار نظر آ جائیں گے، جنرل پرویز مشرف بھی ایسے ہی عقل مندوں میں شامل ہیں جن کے کمانڈو پس منظر نے جرأت و بہادری کا امیج بنایا تھا، بہت سے لوگ بہت سی باتوں پر اختلاف کے باوجود اس سوچ کے حوالے سے متفق تھے کہ ایک جی دار کمانڈو کی طرح جنرل مشرف موت کو گلے لگا لیں گے، بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرینگے اور جب انہوں نے یہ اعلان کیا ’’میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں اور عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کروں گا‘‘ تو اس پر زیادہ شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا گیا۔ بطور صحافی میں نے جنرل پرویز مشرف کے کئی جلسوں کی کوریج کی ہے لیکن بہت قریب سے انہیں گورنر ہاؤس لاہور میں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ جب انہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور حکومت پر قبضہ کے جواز میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا اگرچہ اس وقت پی آئی ڈی کے آفیسر اشفاق گوندل نے انہیں سوالات کی یلغار سے بچانے کیلئے بہت ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر پھر بھی جنرل صاحب کو اس ناخوشگوار تجربہ سے گزرنا پڑا۔ جب اخبارات کے رپورٹروں نے ان پر ’’تابڑ توڑ‘‘ سوالات کی گولہ باری کر دی۔ یہ ان کا تو پیشہ وارانہ معمول تھا لیکن فور سٹار جنرل کیلئے یہ ہزار درجہ ناخوشگوار تجربہ تھا جسے حکم دینے اور تعمیل چاہنے کی عادت ہوں وہ ایسے سوالات سے جن سے جواب طلبی کا تاثر ملتا ہو بدمزہ تو ہونا ہی چاہئے تھا۔ بہرحال انہیں ایسی صورتحال سے نجات دلانے کیلئے ایک بے ضرر سے سوال کو آخری سوال قرار دیکر چائے کی دعوت دے دی گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ سیاستدانوں کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ چاہے صدر اور وزیراعظم ہی کیوں نہ ہوں ہر قسم کے سوال بلکہ الزام کا جواب بھی نہایت خندہ پیشانی سے دیتے ہیں۔ اسکے بعد جنرل مشرف نے پریس کانفرنس کا بھاری پتھر ایک بار چوم کر رکھ دیا۔ پھر اخبارات کے مالکان، ایڈیٹروں اور من پسند اینکرز پرسنز کو بلا کر پریس کانفرنس کا شوق پورا کر لیا جاتا تھا البتہ جنرل پرویز مشرف نے سیاست بھی کی اور (ق) لیگ حمایت کے اڑن کھٹولے پر خوب چھونٹے لئے، مکے لہرائے اور ’’سبھوں‘‘ کو للکارے مارتے رہے۔ بینظیر تو پہلے ہی ملک سے باہر تھیں، میاں نوازشریف کو جلاوطن کر دیا گیا۔ پٹواریوں اور ڈپٹی کمشنروں کے ذریعہ اور (ق) لیگ کے وابستگان کے ذریعے بڑے بڑے جلسوں کے ایسے ناٹک رچائے گئے کہ موصوف خود کو پاکستان کا مقبول ترین عوامی لیڈر سمجھنے لگے، رہی سہی کسر فیس بک پر پانچ لاکھ حمایتیوں نے پوری کر دی۔ دور اندیش اور واقف حال دوستوں کے سمجھانے کے باوجود اس سوچ کے ساتھ کراچی روانہ ہوئے کہ انکے استقبال کیلئے لاکھوں کا مجمع سنبھالا نہیں جائیگا لیکن جب کراچی پہنچے تو…’’ جو سُنا افسانہ تھا ‘‘ کی صورتحال کا سامنا تھا، بہت زیادہ دم بھرنے والے فواد چودھری جیسے بھی ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ گئے، سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم ملا جو زیر سماعت ہے، پہلے تو عدالت میں حاضری سے پہلوتہی کی روش اختیار کی لیکن جب حاضری کے سوا چارہ نہ رہا تو کسی سے نہ ڈرنے ورنے والے کمانڈو کا بقول عتیقہ اوڈو ’’دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا‘‘ اور ظاہر ہے دل کے ٹکڑے جوڑنے کا کام دل کے ہسپتال میں ہی ہو سکتا ہے، کچھ تعجب نہ ہونا چاہئے یہ خبر آ جائے کہ اس دل کا علاج پاکستان کی مخالفت اور ناپسندیدگی کے گرد و غبار سے اٹی فضا میں ممکن نہیں ہے، ویسے اگر دیکھا جائے تو ایک شخص جو آرمی چیف رہا ہوں، جو اس ملک کے سب سے بڑے منصب پر جا بیٹھا ہو خواہ زبردستی ہی سہی خود اپنے کردار و عمل سے اپنی جتنی تضحیک کروا بیٹھا ہے گھر گھر منفی تبصروں کا نشانہ بن رہا ہو سوچا جائے تو یہ عمر قید بلکہ پھانسی سے بھی بدترین سزا ہے۔ الحمدللہ، تحریریں گواہ ہیں اس عاجز نے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد 17 اکتوبر 1999ء کو کراچی کے ہفتہ روزہ میں جنرل مشرف کے اقدام کیخلاف لکھا اور مسلسل لکھا۔ یہ اپنی بہادری جتانے کیلئے نہیں بلکہ اس حوالے سے کسی بھی غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے حقیقت حال کی نشاندہی ہے، اب میری ذاتی سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو آج بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، وزیراعظم نوازشریف کو پوری یکسوئی کیساتھ ان پر توجہ مبذول کرنی چاہئے۔ جنرل مشرف کو ملک سے جانے دیا جائے۔ کمانڈو جنرل کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے یہ کافی ہے، اس لئے اسے ’’روکو مت جانے دو‘‘ کے سلوک میں کوئی ہرج نہیں ہے۔


No comments:

Post a Comment