یہ دانشور صحافی --- آزمائش یا سزا ---؟
کالم نگار | طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)
کچھ اینکرز اور صحافیوں کو خود ساختہ دانشور بننے کا شوق ہے۔ سیاسی ٹاک شوز سے اول و آخر عالمانہ وعظ کے بغیر ان کا شو مکمل نہیں ہوتا۔ اچھی گفتگو علم میں اضافہ کا باعث ہے مگر دین میں اپنی مرضی کی تاویل پیش کرنے کا حق انہیں کس نے دیا ہے؟ ایک معروف کالم نگار اور اینکر صاحب دہشت گردی میں شہید ہونے والے شہریوں اور صحافیوں کے ورثاء سے انٹرویو کر رہے تھے، پروگرام کے آخر میں موصوف بولے ’’انسان کو سب سے زیادہ پیار اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ تم اس وقت تک میری محبت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنے مال اور اولاد سے زیادہ مجھے عزت و محبت نہ دو۔ اللہ تعالیٰ جب ناراض ہوتا ہے تو اس کی یہ نشانی ہے کہ آپ کی اولاد آپ سے چھیننی شروع کر دیتا ہے، مال آ پ سے چھین لیتا ہے، یہ نشانی ہے کہ قدرت ہمارے ساتھ خوش نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے کام کرنے ہوں گے۔‘‘ بظاہر باتیں بہت خوبصورت ہیں مگر ان تمام والدین کے دل چیرنے کے لئے کافی ہیں جاتی ہے جن سے ان کی اولادیں چھینی جا رہی ہیں۔ بقول نام نہاد دانشور صحافی کے اللہ تعالیٰ جسے سزا دینا چاہتا ہے اُس سے مال اور اولاد چھین لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہُوا کہ جن کی اولاد ابھی تک زندہ ہے، اللہ ان سے راضی ہے؟ ان اینکر صاحب پر بھی اللہ تعالیٰ راضی ہیں جو ابھی تک ان کے بچے سلامت ہیں۔ واہ --- موصوف نے کیا دانشمندانہ وعظ اور علمیت کا مظاہرہ فرمایا۔ پہلا حوالہ ہی غلط دیا۔ یہ فرمان نبی کریمؐ کا ہے کہ جب تک تم مجھے اپنے مال اور اولاد سے زیادہ محبت نہیں کرو گے تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ اولاد ’’چھیننے‘‘ کا لفظ استعمال کرنا بھی جہالت ہے۔ چیز مالک سے چھینی جاتی ہے جبکہ بندہ سر تا پا خدا تعالیٰ کا مقروض ہے۔ سب کچھ اسی کی امانت ہے، وہ جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی سے چھینتا نہیں بلکہ اسے آزماتا ہے، جھنجھوڑتا ہے کہ اے بندے تمام نعمتیں میری عطا کی ہوئی ہیں، عارضی سامان دنیا ہے اور تُو نے اسے اپنی ملکیت سمجھ لیا؟ اللہ تعالیٰ مومنین کے لئے فرماتے ہیں ’’ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ بابا بلھے شاہ ؒ کہتے ہیں :
نہ کر بندیا میری میری
نہ تیری نہ میری
چار دناں دا میلہ
دُنیا فیر مٹی دی ڈھیری
اولاد اسی ربّ کی دی ہوئی عارضی نعمت ہے، جب چاہے واپس لے سکتا ہے مگر اسے سزا یا ’’چھیننا‘‘ کہنا ربوبیت کی توہین ہے۔ حضورؐ کی زندگی میں آپؐ کی تین جوان بیٹیاں اور دو کمسن بیٹے انتقال فرما گئے، آپؐ کا خاندان میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا، نعوذ باللہ یہ سزا تھی؟ موصوف یہ فلسفہ ان والدین کو سُنا رہے تھے جن کے جوان بیٹے دہشت گردی کی نذر ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہے تو اسے مال اور اولاد سے آزماتا ہے۔ حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا ’’یا امیرالمومنینؓ آزمائش اور سزا میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا ’’تم پر جب کوئی مصیبت آئے اور وہ مصیبت تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے تو سمجھو آزمائش ہے اگر مصیبت تمہیں اللہ سے دور کر دے تو سمجھو سزا ہے۔‘‘ پاکستان میں سزا تو ان لوگوں کو مل رہی ہے جو ابھی تک آزمائشوں سے محفوظ ہیں اور خوف کی زندگی میں مبتلا ہیں کہ نہ جانے کب اولاد اور عیش و آرام چھن جائے۔ آج اگر میری زندگی میں دُکھ نہ ہوتے تو میرا اپنے خدا کے ساتھ دعا کا رشتہ کیسے بنتا۔ دعا میں شدت غم کی چنگاری سے پیدا ہوتی ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ مظلوم اور دُکھی کی بددعا سے ڈرو۔ ہم پیشہ ور کالم نگار نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ روزانہ کالم کا پیٹ بھرنا ہمارے بس میں نہیں۔ موضوعات کی کمی نہیں بلکہ موضوع کا انتخاب کرنا مشکل ہے، موضوع پر قلم اُٹھانا اور اسے دلفریب لفظوں میں سجا کر پیش کرنے کا ہُنر نہیں آتا اور جذبات کی وقعت نہیں رہی۔ ایک وہ زمانہ تھا جب آنسوئوں سے بھری تحریریں دل چیر جاتی تھیں اور آج یہ زمانہ ہے کہ آنسو بھی شرمندہ ہیں۔ مسلمانوں کی دعائیں اور ان کے آنسو اس لئے بے اثر نہیں کہ اللہ سبحان تعالیٰ ان سے ناراض ہے، مصائب کا سبب بھی اللہ کی ناراضی کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمان خود ساختہ آزمائشوں میں مبتلا ہے، مسلمان نے اپنے ساتھ خود ظلم کیا ہے اور اس کی سزا بُھگت رہاہے۔ بلاناغہ لاشوں کے ڈھیر کی طرح بلاناغہ لکھے جانے والے کالم اور ٹاک شوز بھی روٹین بن چکے ہیں۔ اس پیشہ ورانہ جاب کے بغیر لوگوں کا کچن نہیں چل سکتا جب کہ سیاست اور صحافت کا دار و مدار لفظوں کے کھیل اور جذبات کے ہیر پھیر پر ہے! ان رئیس صحافیوں سے بھی کوئی پوچھے کہ ہمیشہ غریب صحافی ہی کیوں مارے جاتے ہیں؟ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے ڈسکس کئے جاتے ہیں مگر شب و روز سٹریٹ کرائمز میں مارے جانے والے بے گناہوں کا بھی کوئی پُرسان حال ہے…؟
No comments:
Post a Comment