کیسا ہو گا ؟ 2014ء
کالم نگار | مسرت قیوم
قارئین کو نیا سال مبارک ہو ’’دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سال ’’پاکستانی قیادت‘‘ کو قوم سے مخلص فرما دیں، آمین! ابھی تو یہ حال ہے کہ بجلی گیس غائب، سخت سردی میں یخ ہاتھوں سے قلم پکڑنا بھی محال ہو رہا ہے۔ بجلی تو ویسے بھی پچھلے پانچ سات سال سے غائب ہے۔ 2013ء بلاشبہ سیاسی طور پر کافی ہنگامہ خیز رہا، مروجہ سیاست کے شور شرابا، ظالمانہ ہنگامے، عوام کو ریلیف دینے سے قاصر رہے مگر ان تماشوں کی وجہ سے ملک کو ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء صرف ایک کام یعنی اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوا۔ حالات پہلے سے بھی بدتر مگر قیادت امیر تر جبکہ پونے اٹھارہ کروڑ عوام مہنگائی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ بس بقیہ ارب پتی ٹیکس نادہندہ لیڈر قوم کے پیسے پر عیش کر رہے ہیں، خود ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ مڈل کلاس پر پڑا کیونکہ غریب تو پہلے ہی خطِ غربت سے نیچے ہاتھ پائوں ما رہا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی گرانی باعثِ آزار بن چکی ہے۔ جاڑہ عروج پر ہے اور گیس ناپید، چولہے ٹھنڈے پڑے خواتین کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہے ہں۔ ہم حالات کی ستم گری کے رحم و کرم پر جبکہ قیادت ہمارے ووٹوں سے خوشحالی کی آخری سیڑھی پر۔ مہنگائی روکنا مقصود ہے تو پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کر دو مگر اس کی بجائے ’’سستے بازاروں‘‘ پر کروڑوں روپے برباد کر ڈالے۔ غیر ملکی ساختہ ’’پتلون کوٹ‘‘ کے ساتھ میچنگ ٹائیاں باندھے، میڈیا کیمروں کی روشنی میں ’’ڈینگی‘‘ کو ڈھونڈے افسران اور ہیلی کاپٹرز، وی آئی پی پروٹوکول میں مہنگے روکنے کی تدابیر کرتے وزراء صرف اس ملک میں دیکھنے کو ملیں گے۔ جبر، ظلم، دبائو ڈالنے والی سفاک سیاست کے حامل ملک میں ’’نئے سال‘‘ میں بھی کچھ اچھا منظر نظر نہیں آ رہا۔ 2014ء میں حالات واقعات کی حدت بڑنانے یا پھر معاملات کو پُرسکون انداز میں ناظرین تک پہنچانے کا بڑا دارا و مدار ’’میڈیا‘‘ پر رہے گا۔ احسن ہو گا کہ میڈیا نئے سال کو بریکنگ نیوز، سب سے پہلے فلاں‘ کے پنجرے سے آزاد کر دے۔ بلاوجہ ریاست کیلئے دردِ سر پیدا کرنے کی بجائے حقیقی مسائل کر نہ صرف اُجاگر کرے بلکہ حل کرنے میں ممد و معاون بنے۔ دہشت گردی بدستور تلوار کی مانند ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔ ابھی تک معلوم نہیں ہو پایا کہ حالات کب اور کیسے اور کتنی مدت کے بعد بہتری کا رُخ اختیار کریں گے۔ حکومت کی خواہش اپنی جگہ، تازہ پیشقدمی قابل تعریف مگر تمام فریقین کا اعتماد حاصل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ حکومت، فوج کی یکجائی اور یکساں مؤقف ہونے کا مطلب ہی نہیں کہ اب کوئی رکاوٹ نہیں یا اس امر کا اعلان کہ دہشت گردوں کے حملے برداشت نہیں کریں گے۔
یہ سال خطہ سے اتحادی افواج کے جزوی انخلا کا ہے۔ افغانستان پر نیٹو کا 3 سالہ قبضہ کامیابی کی کس بھی بڑی کہانی کو جنم دینے میں ناکام رہا بلکہ خطہ میں سلامتی کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔ امریکہ اب بغیر جنگ کے فتح کی پالیسی لیکر آگے بڑھے گا۔ ہم تو پہلے ہی گھیرے میں آ چکے ہیں اور مزید اڈوں کے قیام کیلئے اراضی کے حصول کی اطلاعات پریشانی بڑھا رہی ہیں۔ حکومت میں باصلاحیت، اہل لوگوں کی کمی نہیں، مسئلہ صرف خلوص، دیانتداری کا ہے۔ داخلی و خارجہ پالیسیوں کی ناکامی اور معاشی زبوں حالی میں ماضی کی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کا الزام بڑی حد تک سچ ضرور ہے مگر اب ہمیں ’’ماضی کے گودام‘‘ کو بند کر دینا چاہئے۔ جنرل مشرف یقیناً اسی سال باہر چلے جائیں گے مگر اس بند کھاتہ کو کھول کر سوائے رنج، مایوسی و انتشار کے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ نئے سال کا ابتدائی مہنیہ اسی گرما گرمی میں گزرے گا۔ ہم یہاں پر میڈیا سے التماس کرتے ہیں کہ اس دھرتی کی ترقی کیلئے اپنی قوت کا استعمال کرے۔ ہم پر لگے دہشت گردی، جھگڑالو قوم کے داغ دھونے کیلئے آگے آ گے نا کہ ’’ناکام ریاست‘‘ کا گروہ دکھانے پر توانائیاں ضائع کرے۔ سیاسی پرندے حسبِ معمول شور مچاتے رہیں گے۔ سڑکوں کی سیاست زیادہ ضرور ہو گی مگر حکومت اپنا کام کرے تو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں۔
اپنے دفاع اور سلامتی کے تحفظ کیلئے ممکن حد تک ضروری تیاریاں مکمل رکھی جائیں۔ سرحد پار اچھے تعلقات، تجارت اچھے ابواب ضروری سہی مگر اپنی خود مختاری کی قیمت پر نہیں۔ اس معاملہ اور پانی جیسے مسئلہ میں غفلت چنداں مستحسن نہیں ہو گی۔ ہمارے وزیراعظم کی دوستی کی خواہش دونوں ممالک میں امن لانے کے عزم کا اظہار کرتی ہے مگر ہم کو اپنے ہمسایہ سے اچھی باتیں بھی لازماً سیکھنا چاہیں۔ دہلی کے نئے وزیر اعلیٰ نے پولیس اہلکار کی ہلاکت پر ایک کروڑ امداد دینے کے علاوہ ہر خاندان کو 20 ہزار لیٹر پانی مفت فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے 400 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے قیمت بجلی آدھی کرنے کا اعلان کر دیا۔ 103 درجے کے بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود اجلاس میں شریک رہے۔ دہلی کے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے لیڈر کہیں ہمارے ’’خادمِ اعلیٰ‘‘ سے آگے نہ نکل جائیں۔ اس خبر کا ہمارے میاں شہباز شریف فوری طور پر نوٹس لیکر دشمن کے وار کو ناکام بنا دیں اور ثابت کر دیں نہ ووٹ دینے والوں کی قسمت نہیں پھوٹی۔ ہماری خواہش ہے کہ 2014ء میں اسمبلیاں ’’قرارداد منظور ہائوس‘‘ سے آگے کی طرف نتیجہ خیز سفر کا آغاز کریں۔ قوم مایوس ضرور ہے مگر مکمل طور پر نااُمید نہیں۔
2L
کالم نگار | مسرت قیوم
قارئین کو نیا سال مبارک ہو ’’دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سال ’’پاکستانی قیادت‘‘ کو قوم سے مخلص فرما دیں، آمین! ابھی تو یہ حال ہے کہ بجلی گیس غائب، سخت سردی میں یخ ہاتھوں سے قلم پکڑنا بھی محال ہو رہا ہے۔ بجلی تو ویسے بھی پچھلے پانچ سات سال سے غائب ہے۔ 2013ء بلاشبہ سیاسی طور پر کافی ہنگامہ خیز رہا، مروجہ سیاست کے شور شرابا، ظالمانہ ہنگامے، عوام کو ریلیف دینے سے قاصر رہے مگر ان تماشوں کی وجہ سے ملک کو ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء صرف ایک کام یعنی اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوا۔ حالات پہلے سے بھی بدتر مگر قیادت امیر تر جبکہ پونے اٹھارہ کروڑ عوام مہنگائی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ بس بقیہ ارب پتی ٹیکس نادہندہ لیڈر قوم کے پیسے پر عیش کر رہے ہیں، خود ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ مڈل کلاس پر پڑا کیونکہ غریب تو پہلے ہی خطِ غربت سے نیچے ہاتھ پائوں ما رہا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی گرانی باعثِ آزار بن چکی ہے۔ جاڑہ عروج پر ہے اور گیس ناپید، چولہے ٹھنڈے پڑے خواتین کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہے ہں۔ ہم حالات کی ستم گری کے رحم و کرم پر جبکہ قیادت ہمارے ووٹوں سے خوشحالی کی آخری سیڑھی پر۔ مہنگائی روکنا مقصود ہے تو پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کر دو مگر اس کی بجائے ’’سستے بازاروں‘‘ پر کروڑوں روپے برباد کر ڈالے۔ غیر ملکی ساختہ ’’پتلون کوٹ‘‘ کے ساتھ میچنگ ٹائیاں باندھے، میڈیا کیمروں کی روشنی میں ’’ڈینگی‘‘ کو ڈھونڈے افسران اور ہیلی کاپٹرز، وی آئی پی پروٹوکول میں مہنگے روکنے کی تدابیر کرتے وزراء صرف اس ملک میں دیکھنے کو ملیں گے۔ جبر، ظلم، دبائو ڈالنے والی سفاک سیاست کے حامل ملک میں ’’نئے سال‘‘ میں بھی کچھ اچھا منظر نظر نہیں آ رہا۔ 2014ء میں حالات واقعات کی حدت بڑنانے یا پھر معاملات کو پُرسکون انداز میں ناظرین تک پہنچانے کا بڑا دارا و مدار ’’میڈیا‘‘ پر رہے گا۔ احسن ہو گا کہ میڈیا نئے سال کو بریکنگ نیوز، سب سے پہلے فلاں‘ کے پنجرے سے آزاد کر دے۔ بلاوجہ ریاست کیلئے دردِ سر پیدا کرنے کی بجائے حقیقی مسائل کر نہ صرف اُجاگر کرے بلکہ حل کرنے میں ممد و معاون بنے۔ دہشت گردی بدستور تلوار کی مانند ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔ ابھی تک معلوم نہیں ہو پایا کہ حالات کب اور کیسے اور کتنی مدت کے بعد بہتری کا رُخ اختیار کریں گے۔ حکومت کی خواہش اپنی جگہ، تازہ پیشقدمی قابل تعریف مگر تمام فریقین کا اعتماد حاصل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ حکومت، فوج کی یکجائی اور یکساں مؤقف ہونے کا مطلب ہی نہیں کہ اب کوئی رکاوٹ نہیں یا اس امر کا اعلان کہ دہشت گردوں کے حملے برداشت نہیں کریں گے۔
یہ سال خطہ سے اتحادی افواج کے جزوی انخلا کا ہے۔ افغانستان پر نیٹو کا 3 سالہ قبضہ کامیابی کی کس بھی بڑی کہانی کو جنم دینے میں ناکام رہا بلکہ خطہ میں سلامتی کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔ امریکہ اب بغیر جنگ کے فتح کی پالیسی لیکر آگے بڑھے گا۔ ہم تو پہلے ہی گھیرے میں آ چکے ہیں اور مزید اڈوں کے قیام کیلئے اراضی کے حصول کی اطلاعات پریشانی بڑھا رہی ہیں۔ حکومت میں باصلاحیت، اہل لوگوں کی کمی نہیں، مسئلہ صرف خلوص، دیانتداری کا ہے۔ داخلی و خارجہ پالیسیوں کی ناکامی اور معاشی زبوں حالی میں ماضی کی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کا الزام بڑی حد تک سچ ضرور ہے مگر اب ہمیں ’’ماضی کے گودام‘‘ کو بند کر دینا چاہئے۔ جنرل مشرف یقیناً اسی سال باہر چلے جائیں گے مگر اس بند کھاتہ کو کھول کر سوائے رنج، مایوسی و انتشار کے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ نئے سال کا ابتدائی مہنیہ اسی گرما گرمی میں گزرے گا۔ ہم یہاں پر میڈیا سے التماس کرتے ہیں کہ اس دھرتی کی ترقی کیلئے اپنی قوت کا استعمال کرے۔ ہم پر لگے دہشت گردی، جھگڑالو قوم کے داغ دھونے کیلئے آگے آ گے نا کہ ’’ناکام ریاست‘‘ کا گروہ دکھانے پر توانائیاں ضائع کرے۔ سیاسی پرندے حسبِ معمول شور مچاتے رہیں گے۔ سڑکوں کی سیاست زیادہ ضرور ہو گی مگر حکومت اپنا کام کرے تو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں۔
اپنے دفاع اور سلامتی کے تحفظ کیلئے ممکن حد تک ضروری تیاریاں مکمل رکھی جائیں۔ سرحد پار اچھے تعلقات، تجارت اچھے ابواب ضروری سہی مگر اپنی خود مختاری کی قیمت پر نہیں۔ اس معاملہ اور پانی جیسے مسئلہ میں غفلت چنداں مستحسن نہیں ہو گی۔ ہمارے وزیراعظم کی دوستی کی خواہش دونوں ممالک میں امن لانے کے عزم کا اظہار کرتی ہے مگر ہم کو اپنے ہمسایہ سے اچھی باتیں بھی لازماً سیکھنا چاہیں۔ دہلی کے نئے وزیر اعلیٰ نے پولیس اہلکار کی ہلاکت پر ایک کروڑ امداد دینے کے علاوہ ہر خاندان کو 20 ہزار لیٹر پانی مفت فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے 400 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے قیمت بجلی آدھی کرنے کا اعلان کر دیا۔ 103 درجے کے بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود اجلاس میں شریک رہے۔ دہلی کے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے لیڈر کہیں ہمارے ’’خادمِ اعلیٰ‘‘ سے آگے نہ نکل جائیں۔ اس خبر کا ہمارے میاں شہباز شریف فوری طور پر نوٹس لیکر دشمن کے وار کو ناکام بنا دیں اور ثابت کر دیں نہ ووٹ دینے والوں کی قسمت نہیں پھوٹی۔ ہماری خواہش ہے کہ 2014ء میں اسمبلیاں ’’قرارداد منظور ہائوس‘‘ سے آگے کی طرف نتیجہ خیز سفر کا آغاز کریں۔ قوم مایوس ضرور ہے مگر مکمل طور پر نااُمید نہیں۔
2L
No comments:
Post a Comment