بہت سے نوجوان تعلیمیافتہ پاکستانی ایک ایسی ایمان افروز اور مثالی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جنّت کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں جس کا خواب انہیں پاکستان کی شکل میں دکھایا گیا تھا-
یہ نوجوان، پاکستانی قومیت اور مذہب کے بارے میں ہماری نصابی کتابوں اور عوامی میڈیا پر پیش کیے گۓ تنگ نظریات کی پیداوار ہیں-
اپنی پیشرو نسل کے برعکس، اس نسل کے نوجوان مرد و خواتین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس خیالی مذہبی ریاست کے فریب پر مکمل یقین کر بیٹھے ہیں کیونکہ ان کے مطابق اس ملک کے بانیوں کا بھی یہی نظریہ تھا-
اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب ان کے پاس پہلے کے مقابلے میں جدید تعلیم اور معلومات حاصل کرنے کے وافر مواقع موجود ہیں-
آج اس نام نہاد 'نئی' نسل نے ان تمام متبادل سچائیوں کو روکنے اور انکا رخ موڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو پاکستان کی وضاحت ایک مذہب، قوم پرستی اور سیاسی وحدانیت کے منفرد تجربے کے برخلاف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
اس گومگو کی کیفیت سے یہ ہوا کہ کتنے ہی نوجوان پاکستانیوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ ان کا جدید طرز زندگی، ایمان کے نام پر مثالی داستان کا اہم جزو ہونے کا دعویٰ کرنے والی انتہا پسند تنظیموں کے سفاکانہ طریقہ کار اور روایتی مذہبی گروہوں سے تعلق اور رابطہ قائم کرنے میں ناکام ہے-
چناچہ، اس احساس جرم کو کم کرنے کے لئے، اس نسل نے ماڈرن دکھنے والے ٹیلی مبلغ اسلام اور تبلیغیوں کی مدد سے فرار کے مختلف راستے تیار کر لئے، ان کے نزدیک اس طرح وہ اپنا ایک قدم مذہبی دنیا میں جبکہ دوسرا قدم ماڈرن مادی دنیا میں رکھ سکتے تھے-
سیاسی اسٹیج پر ان میں سے بہت سوں نے ایسے پرجوش لیڈروں کا انتخاب کیا جو خود بھی اس نسل کی طرح الجھن کا شکار ہیں، یعنی: ری ایکٹو سیاسی اور سماجی قدامت پسندی کو ڈھکا چھپا کر حقیقی لبرل/ڈیموکریٹک اقدار سے مکمل طور پر ہم آہنگ ظاہر کرنا، (نام نہاد 'جعلی' اقدار کے برخلاف)-
لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں جو حزب التحریر (ایچ ٹی) جیسی تنظیم کا شکار ہو گۓ، جسے آپ مذہبی انتہا پسندی کی جدید اور لطیف شکل کہہ سکتے ہیں-
حزب التحریر، اخوان المسلمین (مسلم بھائی بندی) کے ایک سابقہ ممبر نے سنہ انیس سو ترانوے میں یروشلم میں بنائی- انکا مقصد مسلم دنیا کو ایک سیاسی بینر (خلافت) اور شریعت (انکی مرضی کی) کے تلے متحد کرنا تھا-
سنہ انیس سو پچاس سے انیس سو ساٹھ کے درمیاں ایچ ٹی زیادہ تر عرب ممالک میں سرگرم رہی- سنہ انیس سو ستر میں یہ تنظیم اردن، شام اور عراق میں مختلف بغاوتوں میں ملوث رہی-
تاہم، مٹھی بھر ملٹری کے بندوں اور سیاسی علماء کے ایما پر کی جانے والی یہ بغاوتیں آسانی سے کچل دی گئیں-
ان ناکامیوں پر بہت سے ایچ ٹی لیڈر یورپین ممالک فرار ہو گۓ، خصوصاً یو کے- یہاں ایچ ٹی کا رابطہ یو کے میں رہائش پزیر پاکستانیوں، مسلم ہندوستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی دوسری نسل سے ہو گیا- حالانکہ ایچ ٹی، کٹر مغرب مخالف تھے لیکن انہیں برطانیہ میں اس لئے برداشت کیا گیا کیوں کہ وہ سوویت یونین کے خلاف بھی بولتے تھے-
یہی وہ دور تھا جب ایچ ٹی نے خلافت کے آئیڈیا پر دوبارہ کام کرنا شروع کیا- جیسا کہ اب یہ تنظیم یورپ میں سرگرم تھی اس کے ممبروں نے مغربی لباس پہننا، انگلش بولنا اور رابطے کے لئے جدید سیاسی علامتوں کا استعمال شروع کر دیا، یہ تقریباً بین الاقوامی نظام خلافت کا ایک مثالی نظریہ تھا-
سنہ انیس سو اکانوے میں جب سوویت یونین کا زوال ہوا تو ایچ ٹی نے اپنے مہذب کارندے واسطی ایشیائی ممالک میں بھیجنا شروع کر دیے- لیکن اب پاکستان کی طرف ان کی توجہ پہلے سے بھی زیادہ تھی-
انیس سو اسی میں افغان خانہ جنگی کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک (پاکستان) میں انتہا پسندوں اور فرقہ پسند تنظیموں نے سر اٹھانا شروع کر دیا-
جنگ کے اثرات میں، ریاست کی سرپرستی میں پاکستان کی 'اسلامائز یشن' کے ساتھ ساتھ نظریاتی اور مذہبی الجھن بھی شامل تھے- اس الجھن نے شہری مڈل کلاس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا-
No comments:
Post a Comment