" بینک دولت پاکستان دس روپیہ، حاملِ ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔ حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا " ( زمین ولی خان )
اس عبارت کے نیچے گورنر سٹیٹ بینک کے دستخت ثبت ہوتے ہیں ۔ یہ ایک رسید ہے، ایک وعدہ ہے، ایک حلف نامہ ہے کہ اس کے بدلے میں جب اور جس وقت رسید کا حامل سونا، چاندی، اجناس یا جو چیز طلب کرے حکومت پاکستان اس کو ادا کرے گی ۔ فراڈ کا عالم یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے 313 ارب روپے کے سونے کے ذخائر موجود ہیں ۔ اور اگر اس میں 4.6 ارب روپے کے سونے کے وہ ذخائر بھی شامل کر لئے جائیں جو انگلستان میں بینک آف انڈیا کے پاس پڑے ہیں ۔ جو 1947سے آج تک واپس ہی نہیں کئے گئے ۔ تو یہ کل 318 ارب روپے کا سونا بنتا ہے ۔ اس محدود سونے پر حکومت پاکستان نے جو رسیدیں یعنی کرنسی نوٹ جاری کئے ہیں ۔ اور جن پرلکھا ہے کہ " مطالبے پر ادا کرے گا " وہ ایک ہزار سات سو ارب کی مالیت کی ہیں ۔ یہ تو سٹیٹ بینک کے نوٹوں کی کہانی ہے، اس کے بعد سود خور بنکوں کا مرحلہ آتا ہے۔ بنکوں کو ایک خاص شرح " ریزرو " نوٹ رکھ کر مصنوعی دولت تخلیق کرنے کا اختیار ہے ۔ جس کی بدولت اس وقت اس سرمائے کی کل مقدار نو ہزار آٹھ سو اٹھائیس ارب روپے ہے ۔ اگر اس وقت اس ملک کے تمام کھاتے دار اپنے چیک لے کر بنکوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ ہماری رقم واپس کرو تو چند منٹوں میں یہ پورا نظام زمیں بوس ہو جائے گا ۔ کوئی اس جھوٹ اور فراڈ کے خلاف ایسی تحریک نہیں چلاتا، کوئی سیاسی پارٹی یہ نہیں کہتی کہ حکومت جو جھوٹ بول کر نوٹ چھاپ رہی ہے، اس رسید کو لینے سے انکار کر دو اور اس کے بدلے میں کوئی جنس طلب کرو جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے ۔ اس لئے کہ اس پورے سودی نظام کو تحفظ دینے کے لیے جمہوریت، پارلیمنٹ اور اس طرح کے ادارے قائم کئے گئے جن کا کام ہی اس جھوٹ اور فراڈ کی معیشت کو سہارا دینا ہوتا ہے ۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ پوری دنیا کے اربوں انسانوں کو اسی دھوکے، فراڈ اور جھوٹی رسیدوں کے ذریعے پاگل بنایا گیا ہے ۔ کس قدر بودا کمزور اور بے بنیاد ہے یہ پورا سودی نظام جسے صرف ایک گھنٹے کے اندر زمین بوس کیا جا سکتا ہے ۔ اسی سودی نظام کو الله رب العزت نے اپنے اور اپنے رسول محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھلی جنگ قرار دیا ۔ اور خلافت میں پوری انسانیت کے لیے فلاح رکھ ۔۔۔۔۔
اس عبارت کے نیچے گورنر سٹیٹ بینک کے دستخت ثبت ہوتے ہیں ۔ یہ ایک رسید ہے، ایک وعدہ ہے، ایک حلف نامہ ہے کہ اس کے بدلے میں جب اور جس وقت رسید کا حامل سونا، چاندی، اجناس یا جو چیز طلب کرے حکومت پاکستان اس کو ادا کرے گی ۔ فراڈ کا عالم یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے 313 ارب روپے کے سونے کے ذخائر موجود ہیں ۔ اور اگر اس میں 4.6 ارب روپے کے سونے کے وہ ذخائر بھی شامل کر لئے جائیں جو انگلستان میں بینک آف انڈیا کے پاس پڑے ہیں ۔ جو 1947سے آج تک واپس ہی نہیں کئے گئے ۔ تو یہ کل 318 ارب روپے کا سونا بنتا ہے ۔ اس محدود سونے پر حکومت پاکستان نے جو رسیدیں یعنی کرنسی نوٹ جاری کئے ہیں ۔ اور جن پرلکھا ہے کہ " مطالبے پر ادا کرے گا " وہ ایک ہزار سات سو ارب کی مالیت کی ہیں ۔ یہ تو سٹیٹ بینک کے نوٹوں کی کہانی ہے، اس کے بعد سود خور بنکوں کا مرحلہ آتا ہے۔ بنکوں کو ایک خاص شرح " ریزرو " نوٹ رکھ کر مصنوعی دولت تخلیق کرنے کا اختیار ہے ۔ جس کی بدولت اس وقت اس سرمائے کی کل مقدار نو ہزار آٹھ سو اٹھائیس ارب روپے ہے ۔ اگر اس وقت اس ملک کے تمام کھاتے دار اپنے چیک لے کر بنکوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ ہماری رقم واپس کرو تو چند منٹوں میں یہ پورا نظام زمیں بوس ہو جائے گا ۔ کوئی اس جھوٹ اور فراڈ کے خلاف ایسی تحریک نہیں چلاتا، کوئی سیاسی پارٹی یہ نہیں کہتی کہ حکومت جو جھوٹ بول کر نوٹ چھاپ رہی ہے، اس رسید کو لینے سے انکار کر دو اور اس کے بدلے میں کوئی جنس طلب کرو جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے ۔ اس لئے کہ اس پورے سودی نظام کو تحفظ دینے کے لیے جمہوریت، پارلیمنٹ اور اس طرح کے ادارے قائم کئے گئے جن کا کام ہی اس جھوٹ اور فراڈ کی معیشت کو سہارا دینا ہوتا ہے ۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ پوری دنیا کے اربوں انسانوں کو اسی دھوکے، فراڈ اور جھوٹی رسیدوں کے ذریعے پاگل بنایا گیا ہے ۔ کس قدر بودا کمزور اور بے بنیاد ہے یہ پورا سودی نظام جسے صرف ایک گھنٹے کے اندر زمین بوس کیا جا سکتا ہے ۔ اسی سودی نظام کو الله رب العزت نے اپنے اور اپنے رسول محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھلی جنگ قرار دیا ۔ اور خلافت میں پوری انسانیت کے لیے فلاح رکھ ۔۔۔۔۔

No comments:
Post a Comment